مارکٹس

اسٹیٹ بینک:شرح سود مسلسل ساتویں بار 22 فیصد پر برقرار

  • آئندہ بجٹ سے متعلق اقدامات کے بھی مہنگائی کی صورتحال پر اثرات ہوسکتے ہیں ، مانیٹری پالیسی کمیٹی
شائع April 29, 2024

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی ) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی ) نے مسلسل ساتویں بار شرح سود کو 22 فیصد کی سطح پر برقرار رکھا۔

پیر کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی ) نے پالیسی ریٹ کو 22 فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کمیٹی نے نوٹ کیا کہ میکرو اکنامک استحکام کے اقدامات افراط زر اور بیرونی پوزیشن دونوں میں خاطر خواہ بہتری میں معاون ثابت ہورہے ہیں ۔

کمیٹی کے مطابق افراط زر کی سطح اب بھی بلند ہے۔

اپنے فیصلے کی وجوہات بتاتے ہوئے مانیٹری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتیں لچکدار عالمی شرح نمو کے ساتھ نیچے آ گئیں، جبکہ حالیہ جغرافیائی سیاسی واقعات نے بھی ان کے بارے میں بے یقینی کی صورتحال میں اضافہ کیا اور بجٹ سے متعلق آنے والے اقدامات کے بھی مہنگائی کی صورتحال پر اثرات ہوسکتے ہیں۔

مانیٹری پالیسی نے اپنے بیان میں کہا کہ اہم مثبت حقیقی شرح سود کے ساتھ موجودہ مانیٹری پالیسی کا تسلسل ضروری ہے تاکہ ستمبر 2025 تک مہنگائی کی شرح کو 5 سے 7 فیصد کے ہدف تک کم کیا جائے۔

پس منظر

بزنس ریکارڈر کے مطابق بروکریج ہاؤس کی دو الگ الگ رپورٹس میں نصف ماہرین شرح سود برقرار رہنے کی توقع کررہے تھے جب کہ بقیہ نے 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کی پیش گوئی کی تھی ۔

واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک نے آخری بار جون 2023 میں پالیسی ریٹ میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا تھا ۔ بعدازاں اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں تاحال کوئی تبدیلی نہیں کی اور شرح سود کو 22 فیصد کی سطح پر برقرار رکھا۔

کافی لوگ مہنگائی میں کمی کے باعث شرح سود میں نرمی کی توقع کررہے تھے۔

تاہم، بہت سے لوگوں نے یہ بھی کہا کہ اسٹیٹ بینک احتیاط سے کام لے گا ، خاص طور پر یہ دیکھتے ہوئے کہ پاکستان کے پاس اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی ایک آخری قسط زیر التوا ہے اور اسلام آباد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (ۤئی ایم ایف) کے ساتھ ایک طویل پروگرام کا خواہاں ہے۔

ایک اہم پیش رفت کے طور پر مرکزی بینک کے پالیسی فیصلے کے بعد اب آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پاکستان کے لیے 1.1 ارب ڈالر کی فنڈنگ ​​کی منظوری پر تبادلہ خیال کیا جائے گاجو کہ 3 ارب ڈالر کی ایس بی اے کی آخری قسط ہے۔

تجزیہ کاروں نے کیا کہا

مارکیٹ ماہرین کا خیال تھا کہ مرکزی بینک مانیٹری پالیسی میں کسی بھی نرمی کے اطلاق میں تاخیر کا انتخاب کر سکتا ہے کیونکہ اس کی نظر بڑھتی ہوئی ترقی اور افراط زر کے دباؤ کو کنٹرول میں رکھنے کے درمیان توازن قائم کرنے پر ہے۔

کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ شرح میں کمی کی حمایت کرنے والے عوامل میں سی پی آئی افراط زر میں کمی، قابل انتظام کرنٹ اکاؤنٹ، مستحکم مقامی اور بین الاقوامی تیل کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ مستحکم کرنسی بھی شامل ہوسکتی ہے۔

بروکریج ہاؤس عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) کی ایک رپورٹ میں منقسم رائے شماری کے نتائج کا حوالہ دیا گیا تھا جس میں تجویز کیا گیا کہ 52 فیصد جواب دہندگان آئندہ اعلان میں ’کوئی تبدیلی‘ کی توقع نہیں رکھتے، جب کہ بقیہ 48 فیصد کمی دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے 19 اپریل کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا کہ ٹریژری بلز کے لیے پرائمری مارکیٹ میں (پچھلی میٹنگ کے بعد)، تبدیلیاں معمولی رہی ہیں، 3 ماہ اور 12 ماہ کی مدت میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی اور 6 ماہ میں 0.99 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

ثانوی مارکیٹ میں 3 ماہ کی مدت میں 0.43 فیصد ، 6 ماہ میں 0.13 فیصد اور 12 ماہ کی مدت میں 0.45 فیصد اضافہ ہوا ۔ 3 سالہ مدت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ، 5 سال میں 0.05 فیصد کا معمولی اضافہ اور 10 سالہ مدت میں 0.02 فیصد کی معمولی کمی دیکھی گئی ۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ رجحانات موجودہ مانیٹری پالیسی کے موقف کے حوالے سے منقسم مارکیٹ کے جذبات کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اے ایچ ایل نے کہا کہ تیل کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمتیں معاملات کو مزید پیچیدہ کررہی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات جس نے ایک سخت مانیٹری پالیسی کو برقرار رکھنے کی سفارش کی ہے اس نازک توازن کی نشاندہی کرتی ہے جس پر ایس بی پی کو سخت موقف اختیار کرنا چاہیے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے مسلسل اقتصادی ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت پر زور دینے اور پاکستان کو آئندہ مالی سال 24 ارب ڈالر کے قرضوں کی خاطر خواہ ادائیگیوں کا سامنا کرنے کے باعث اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ کو برقراررکھا ہے ۔

دریں اثنا ایک اور بروکریج ہاؤس ٹاپ لائن سیکیورٹیز کی ایک رپورٹ نے بھی اسی طرح کی توقع ظاہر کی ہے۔

انہوں نے ایک نوٹ میں کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک حوصلہ افزا رجحانات کے باوجود محتاط رویہ برقرار رکھے گا اور ’دیکھو اور دیکھو‘ کا طریقہ اپنائے گا۔

ایم پی سی کا پچھلا اجلاس

18 مارچ کو اپنی پچھلی میٹنگ میں اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے مسلسل چھٹی بار پالیسی ریٹ کو 22 فیصد کی سطح پر برقراررکھا تھا جو کہ مارکیٹ کی توقعات کے مطابق تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ شرح سود کر بر قرار رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ اس فیصلے تک پہنچنے کے حوالے سے کمیٹی نے نوٹ کیا کہ گزشتہ توقعات کے مطابق مہنگائی واضح طور پر کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔

آخری ایم پی سی کے بعد سے اقتصادی سطح پر کئی اہم پیش رفت ہوئی ہیں۔

روپےکی قدر میں معمولی 0.2 فیصد اضافہ ہواجبکہ پٹرول کی قیمتوں میں تقریباً 5 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتیں بڑی حد تک مستحکم رہیں جو مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے باعث 80 ڈالر فی بیرل سے زیادہ ہورہی تھیں۔

کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) پر افراط زر مارچ میں سالانہ بنیاد پر 20.7 فیصد تک پہنچ گئی۔

علاوہ ازیں پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ نے مارچ 2024 میں 619 ملین ڈالر کا سرپلس ریکارڈ کیا جو پچھلے ماہ میں 98 ملین ڈالر کے نظرثانی شدہ سرپلس کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

جمعرات کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر میں ہفتہ وار بنیادوں پر 74 ملین ڈالر کی کمی ہوئی ہے جو 19 اپریل تک 7.981 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔

ملکی مجموعی زرمبادلہ ذخائر 13.28 ارب ڈالر ہیں جب کہ کمرشل بینکوں کے پاس 5.299 ارب ڈالر ہیں ۔

Comments

Comments are closed.