حکومت کا بجلی کی کھپت کو بڑھانے کے لیے مختلف آپشنز پر غور
حکومت ملک میں بجلی کی کھپت بڑھانے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے کیونکہ مارچ 2024 میں صنعت سمیت صارفین کی طلب میں 7.5 فیصد کمی دیکھی گئی ہے ۔
یہ ریمارکس چیف ایگزیکٹو آفیسرسی پی پی اے ۔ جی ریحان اختر کی جانب سے نیپرا میں مارچ 2024 کے لیے 2.94 روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کرنے کی تجویز پر عوامی سماعت کے دوران سامنے آئے تاکہ صارفین سے 22.8 ارب روپے کی اضافی رقم وصول کی جا سکے۔
اس حوالے سے چیئرمین نیپرا وسیم مختار، ممبر (ٹیکنیکل) سندھ رفیق احمد شیخ (آن لائن) ، ممبر کے پی کے مقصود انور خان اور ممبر (قانون) آمنہ احمد پر مشتمل اتھارٹی نے سماعت کی۔
سماعت کے دوران رفیق احمد شیخ نے کھپت میں کمی کی وجوہات، رکاوٹوں ، نیٹ میٹرنگ ، کوئلے سے چلنے والے کچھ سستے پلانٹس کے ساتھ امتیازی سلوک ، مہنگے پاور پلانٹ اور طلب میں اضافے کے لیے مستقبل کی حکمت عملی کے حوالے سے مختلف سوالات اٹھائے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر عارف بلوانی نے اپنے تبصروں میں کہا کہ ہر ماہ خاص طور پر صنعتی مانگ میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ انہوں نے بجلی کی کھپت کو بڑھانے کے لیے صنعتی پیکیج کے لیے کسی امکان کے بارے میں دریافت کیا کیونکہ ملک کیپیسٹی کے مسئلے میں بری طرح پھنسا ہوا ہے ۔ انہوں نے استفسار کیا کہ پاور ڈویژن یہ اقدام کیوں نہیں کررہا جس سے موجودہ پیداواری صلاحیت کے استعمال میں مدد ملے ۔
عارف بلوانی نے تجویز پیش کی کہ بجلی کی کھپت کے موجودہ پیٹرن کی روشنی میں آئی جی سی ای پی (انڈیکیٹو جنریشن کیپیسٹی ایکسپینشن پلان) پر نظرثانی کی جائے اور نظام میں نئے منصوبوں کی شمولیت کا از سر نو جائزہ لیا جانا چاہیے ۔
ریحان اختر نے طلب میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس حوالے سے حکومت آگاہ ہے اور متعدد آپشنز پر کام بھی کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیا آئی جی سی ای پی ملک میں موجودہ طلب کے منظر نامے اور مستقبل کی بجلی کی ضروریات کے مطابق تبدیل کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملکی ٹرانسمیشن سسٹم پر خدشات ہیں، اس بار ٹرانسمیشن سسٹم کیپیسیٹی ایکسپینشن پلان (ٹی ایس ای پی) کو بھی مطلع کیا جائیگا ۔
نیشنل پاور کنٹرول سینٹر (این پی سی سی) کے نمائندے واجد چٹھہ نے سستے کوئلے کی پیداوار کے مقابلے مہنگے آر ایل این جی پاور پلانٹس کے آپریشن کی وجوہات، اکنامک میرٹ آرڈر (ای ایم او) کے پیچھے کی منطق اور اس کی خلاف ورزی کے حوالے سے آگاہ کیا ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ملک میں کافی حد تک نیٹ میٹرنگ کی وجہ سے، جب سورج غروب ہونے کے بعد شمسی نظام سے پیداوار کم ہو جاتی ہے یا صفر ہو جاتی ہے تو صارفین کو سپلائی کے لیے پاور پلانٹس کو بڑھانا لازمی ہے۔
سی ای اوسی پی پی اے ۔ جی نے کہا کہ ملک میں نیٹ میٹرنگ میں بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
نیٹ میٹرنگ سسٹم میں تھی لیکن اس کا اثر اتنا نہیں تھا جتنا آج ہے ۔ ڈسکوز جو نیٹ میٹرنگ کا کام کررہے ہیں انہیں اپنے 1100 کے وی سسٹمز پر غروب آفتاب کے بعد سپلائی سائیڈ سے نمٹنے کے لیے اسٹڈیز کرنا چاہیے۔
ریحان اختر نے مزید کہا کہ ڈسکوز کی طرف سے سفارشات وزارت کو آنی چاہئیں کہ ان کے استعمال کے وقت (ٹی او یو) پیٹرن کو موجودہ منظر نامے کے مطابق نظر ثانی کی جائے ۔ گڈو کی فی یونٹ لاگت کمبائنڈ سائیکل پاور پلانٹ سے 3.5 روپے زیادہ ہے جس کی کل لاگت 580 ملین روپے ہے۔
سماعت کے دوران سی پی پی اے ۔ جی کے نمائندے نے نوٹ کیا کہ مارچ 2024 میں مجموعی طور پر بجلی کی طلب میں 7.5 فیصد کی کمی ہوئی ہے جس میں گھریلو حصہ 11.3 فیصد، تجارتی 2.8 فیصد، صنعتی 4.5 فیصد اور بلک صارفین (ہاؤسنگ سوسائٹیز) کا 34.7 فیصد تھا ۔ مارچ میں نیٹ میٹرنگ سے درآمدات 55 ملین یونٹس رہیں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments
Comments are closed.