عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ڈیل سے قبل توقع ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان پیر کو مسلسل ساتویں زری پالیسی میٹنگ میں شرحِ سود کو 22 فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کو ترجیح دے گا ۔ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے بورڈ سے نئی ڈیل کی منظوری اور طویل المیعاد پروگرام پر حتمی بات چیت کی تیاری کررہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے ایک سروے کے مطابق پیر کے پالیسی فیصلے کے بعد آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پاکستان کے لیے 1.1 بلین ڈالر کی فنڈنگ کی منظوری پر تبادلہ خیال کیا جائے گا جو آئی ایم ایف کے ساتھ 3 بلین ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی آخری قسط ہے۔
رائٹرز کو 14 ماہرین نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اسٹیٹ بینک شرح سود کو 22 فیصد کی سطح پر برقرار رکھے گا ۔ چار ماہرین کا اندازہ ہے کہ 100 بیسز پوائنٹس کی کمی ہوگی جبکہ 2 ماہرین کا خیال ہے کہ کٹوتی 50 بیسز پوائنٹس کی حد تک واقع ہوگی ۔ 8 ماہرین کو توقع ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کسی نئی ڈیل پر دستخط سے قبل شرحِ سود میں کمی واقع ہوگی ۔ 10 جون 2024 کو ایم پی سی کی ایک اور میٹنگ متوقع ہے جو ممکنہ طور پر پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے کسی نئے پیکیج کی منظوری سے قبل ہوگی۔
پاکستان ایک نئے طویل مدتی اور بڑے آئی ایم ایف پروگرام کی تلاش میں ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ اسلام آباد آئی ایم ایف کے ساتھ اگلے ماہ بات چیت شروع کرے گا اور جولائی میں نئے پروگرام پرعملے کی سطح کا معاہدہ ہوجائیگا۔
شرح سود آخری بارگزشتہ برس جون میں بڑھائی گئی تھی تاکہ مہنگائی کے دباؤ کا مقابلہ کیا جا سکے اور یہ آئی ایم ایف کی طرف سے پیش کی جانے والی شرائط میں بھی شامل تھا۔
مارچ کے لیے پاکستان کا کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) پچھلے سال کے مقابلے میں 20.7 فیصد بڑھ گیا جو مئی 2023 میں 38 فیصد کی بلند ترین سطح کو چھو گیا تھا۔
ممتاز پاکستانی تاجر عارف حبیب نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ اپریل کا سی پی آئی کا اعداد و شمار 17.5 فیصد کے آس پاس ہوگا۔
بروکریج ہاؤس عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) کے ریسرچ کے سربراہ طاہر عباس نے کہا کہ مرکزی بینک کی جانب سے آئی ایم ایف کا نیا پروگرام حاصل کرنے سے قبل شرح میں کمی کا امکان نہیں ہے۔
طاہر عباس کا یہ بھی کہنا تھا کہ زری پالیسی سے متعلق میٹنگ میں مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال سے افراطِ زر کی صورتِ حال پر مرتب ہونے والے اثرات اور خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کے معیشتی اثرات پر بھی غور و خوض کیا جائے گا۔
لیکسن انویسٹمنٹ کے سی آئی او مصطفیٰ پاشا کا کہنا ہے کہ موجودہ سہ ماہی کے دوران علامتی نوعیت کی کٹوتی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ستمبر کے بعد کی سہ ماہی میں جارحانہ کٹوتی کی جاسکتی ہے۔ ملکی ٹریژری بلز کے لیے حکومت کو 670 ارب روپے کی ضرورت ہے۔ تب تک افراطِ زر اور زرِمبادلہ ذخائر کے حوالے سے صورتِ حال بہت حد تک واضح ہوچکی ہوگی۔ تاریخی اعتبار سے پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے پہلے سال شرحِ سود گھٹاتا ہے اور ہم دسمبر کے آس پاس 17 فیصد تک کی شرحِ سود کی توقع کرسکتے ہیں ۔
Comments
Comments are closed.