وفاقی وزیر برائے بجلی و توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ ملک میں بجلی چوروں کے ساتھ ملی بھگت کرنے والے ڈسکوز کے اہلکاروں کو سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور بورڈز کی تشکیل نو کی جائے گی، جو کہ متعلقہ اہلکاروں کو بری کارکردگی پر جوابدہ ٹھہرائے گا۔
اپنی پہلی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ پاور ڈویژن نے پاور سیکٹر میں اصلاحات کا مکمل روڈ میپ پیش کر دیا ہے جس پر جلد عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔ ریفارمز پلان پر لائن وزارتوں سے بھی بات ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے تین ہفتوں کے اندر پاور سیکٹر کی تمام کمزوریوں کا جائزہ لیا اور ہر مسئلے پر باری باری غور کیا جس کے بعد ہم نے وزیر اعظم کو اصلاحات کا ایک جامع روڈ میپ پیش کیا ہے۔ مجوزہ اصلاحات کی تفصیلات ایک ہفتے کے اندر میڈیا کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ڈسکوز کی وصولی 1.9 ٹریلین روپے ہے جس میں سے بڑا حصہ نجی شعبے سے متعلق ہے۔ ڈسکوز کے خسارے کا حجم رواں مالی سال کے اختتام تک 560 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے جس میں سے 200 ارب روپے ڈسکوز کے بل صارفین کو وصول ہوتے ہیں لیکن ریکوری نہیں ہوتی جبکہ 300 ارب روپے سے زائد ان یونٹس سے متعلق ہوں گے جن کا تعلق ڈسکوز سے ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ان نقصانات کا مالی فائدہ غیرقانونی سرگرمیوں میں سہولت کاری کرنے والے ڈسکوز کے افسران اور بجلی چوری میں ملوث صارفین کو پہنچایا جاتا ہے۔
سردار اویس لغاری نے کہا کہ چوری سے متعلق نقصانات کا ملکی معیشت پر کافی اثر پڑتا ہے، جسے ہم اب برداشت نہیں کر سکتے۔ کسی افسر کے کسی وزیر/سیاستدان یا وزارت میں بیٹھے افسر کے ساتھ تعلقات پر غور نہیں کیا جائے گا، ہمارا ملک اس قسم کی سرگرمی کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ بجلی چوروں اور ڈسکوز کے اہلکاروں یعنی سی ای اوز، ایس ای کے ایکس ای اینز، ایس ڈی اوز، لائن سپرنٹنڈنٹ یا لائن مین پر کوئی رحم نہیں کیا جائے گا کیونکہ ملک ان اہلکاروں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی فراہمی ایک ضروری خدمت ہے، جو بھی حکومتی کارروائی کے خلاف احتجاج کرنا چاہتا ہے وہ آگے بڑھے۔ حکومت اس پر کوئی توجہ نہیں دے گی۔ ہمارا پختہ یقین ہے کہ 20 فیصد سے زیادہ اہلکار چوری میں ملوث نہیں ہیں۔ ہم ان 20 فیصد اہلکاروں کو بقیہ 80 فیصد کو حفاظتی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، حکومت بجلی چوروں کے ساتھ ملی بھگت کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے گی۔
وزیر نے مزید کہا کہ اگر ڈسکوز مناسب کارروائی کرتے ہیں تو ’برے‘ اہلکاروں کو باقاعدہ انکوائری کے بعد دروازہ دکھایا جا سکتا ہے۔ ملک میں کافی نئے الیکٹریکل انجینئرز ہیں جنہیں یہ ذمہ داری سونپنے سے پہلے صرف مہینوں میں تربیت دی جا سکتی ہے۔
وزیر نے انسداد چوری مہم میں تعاون فراہم کرنے پر ایف آئی اے کے حکام کی نہ صرف تعریف کی بلکہ اس سلسلے میں ان کی کوششوں پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ انہوں نے اعادہ کیا کہ چوری کا مالی بوجھ ایماندار صارفین پر بڑے پیمانے پر اوور بلنگ کے ذریعے منتقل کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی منظوری سے ڈسکوز کے نئے بورڈز ایک ہفتے میں بنادیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ نئے بورڈز کو مکمل طور پر غیر سیاسی کیا جائے گا اور وہ شعبے کے ماہرین پر مشتمل ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں، انہوں نے کہا کہ حکومت اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ متوسط طبقے کی طرف سے سرمایہ کاری ضائع نہ ہو، نیٹ میٹرنگ کا ایک مکمل اور حوصلہ افزا جائزہ لے گی۔
وفاقی وزیر کا کہناہے کہ ہم مستقبل میں نیٹ میٹرنگ کی حوصلہ افزائی کریں گے لیکن شاید منافع کی شرح وہ نہیں ہوگی جو فی الحال دستیاب ہے کیونکہ سولرائزیشن پر سرمایہ کاری ڈیڑھ0 سال میں بحال ہو جائے گی۔
ڈسکوز کی نجکاری کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیر نے کہا کہ کاروبار چلانا حکومت کا کام نہیں ہے، اور سوال کیا کہ ڈسکو بورڈ پر بیٹھ کر کسی وزارت کا سیکرٹری یا جوائنٹ سیکرٹری کیسے فیصلہ کر سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ ڈسکوز (نجکاری یا طویل مدتی رعایتی معاہدوں) کے مستقبل کا سوال کابینہ اور وزیر اعظم کی میز پر ہے جو اگلے ہفتے حتمی فیصلہ کریں گے جس پر نئے بورڈز کے ذریعے عمل درآمد کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ وہ صنعت کے ذریعے کراس سبسڈی دینے کے مخالف ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انڈسٹری گھریلو صارفین کو 260 ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے، جو صنعت پر بوجھ ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ لائف لائن صارفین کو سماجی تحفظ کے طریقہ کار سے سبسڈی دی جا سکتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وفاقی حکومت کے الیکٹرک کو سالانہ 170 ارب روپے کی ٹیرف ڈیفرینشل سبسڈی (ٹی ڈی ایس) میں توسیع کر رہی ہے کیونکہ پاور یوٹیلیٹی کمپنی نے سستی پیداوار اور ٹرانسمیشن لائن پر سرمایہ کاری نہیں کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ 7.5 ارب روپے سالانہ ان اہلکاروں کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر خرچ ہو رہے ہیں جو غیر فعال پاور پلانٹس میں بیٹھے تھے اور وعدہ کیا کہ حکومت اس پر فیصلہ کرے گی۔
سرداری اویس لغاری نے بتایا کہ ہماری اہم تلاش یہ ہے کہ اگر توانائی کے شعبے میں بہتری آئے گی تو پاکستان معاشی طور پر ترقی کرے گا۔ صنعت، تجارتی شعبے اور زراعت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے۔
ایک اور سوال کے جواب میں، وزیر نے کہا کہ مختلف آپشنز بشمول پاور پلانٹس کے قرضے میں اضافہ اور پیکج کے ذریعے کھپت میں اضافہ زیر غور ہے جس کا مقصد صلاحیت کی ادائیگی کے بوجھ کو کم کرنا ہے۔
Comments
Comments are closed.