پاکستان میں توانائی کے شعبے میں کثیر الجہتی مسائل ہیں ۔ توانائی کے شعبے میں بجلی اور پٹرولیم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، تاہم اس شعبے پر کبھی بھی تفصیلی نگاہ نہیں ڈالی گئی اور مذاکرات یا پھر مکالموں کے دوران بھی ان پیچیدگیوں کو کافی حدتک اسی طرح چھوڑ دیا گیا۔

آج ملک کے پاس اضافی بجلی پیداوار کیلیے صاف ستھرے ذرائع(جیسے جوہری،ہائیڈل، اور دیگر قابل تجدید ذرائع) اور کارآمد پلانٹس(جیسے آر ایل این جی نئے پلانٹس)کی شکل میں بڑی صلاحیت موجود ہے۔ تاہم زیادہ قیمتوں کے سبب روایتی ذرائع سے مانگ نہیں بڑھ رہی، موجودہ وقت میں ٹرانسپورٹیشن کا انحصاردرآمدی ایندھن پر ہے ویسے بھی رکشوں، موٹرسائیکلوں اور بسوں میں پرانے انجن استعمال کیے جارہے ہیں۔

ٹرانسپورٹیشن کے بوجھ کو بجلی میں تبدیل کرنے کا بہترین موقع ہے اور اس سے پاور گرڈ کے زیادہ استعمال اور سولر پینلز کے زیادہ سے زیادہ استعمال میں مدد ملے گی۔ اس تبدیلی میں بہت زیادہ چیلنجز نہ ہونا بھی خوش آئند اور اچھی خبر ہے جبکہ صارفین کی سطح پر یہ اقدام اٹھانے کا معاشی جواز بھی موجود ہے۔

تاہم اس معاملے میں سست رفتاری کی اہم وجہ مسلسل غیر یقینی معاشی صورتحال ہے جو الیکٹرک گاڑیوں کیلئے سرمایہ کاری میں رکاوٹ بھی بن رہی ہے۔ تاہم اس معاملے میں حکومتی اقدامات درکار ہیں کیوں کہ درآمدی ایندھن پر کم انحصار، توانائی کے موثر استعمال اور آلودگی میں کمی سے فضا بہتر اور بہت زیادہ بچت ہوسکتی ہے۔

لمز انرجی انسٹی ٹیوٹ اور یو ایس پاکستان سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈیز ان انرجی(یو ایس پی سی اے ایس ـای)کی 2019 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں 2025 تک5 لاکھ الیکٹرک گاڑیوں کو ٹرانسپورٹیشن گرڈ میں لانے کی تجویز دی گئی۔رپورٹ میں دلیل دی گئی کہ اس سے گرڈ پر دیگر قسم کے بوجھ کو چیلنج کیے بغیر آنے والی نئی بجلی کی صلاحیت کو استعمال کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ تجویز آج مزید قابل تائید اور عمل ہوچکی ہے، کیوں کہ دیکھا جائے تو 2019 سے بجلی کی کھپت تقریباً رک گئی ہے اور بڑھتی ہوئی ادائیگیاں صنعتی صارفین اور گھرانوں کے لیے بجلی کو ناقابل برداشت بنا رہی ہے۔ اس لیے 3،2 پہیوں والی گاڑی اور انٹر سٹی بسوں کی جگہ الیکڑک گاڑیاں چلانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔

5 لاکھ الیکٹرک گاڑیاں ٹرانسپورٹیشن گرڈ میں شامل کرنے کے مطالعے کے مطابق (فرض کیا جائے کہ وہ 300 دنوں کیلئے چارج کی جائیں گی)، ہر گاڑی کو روزانہ 28 کلو واٹ آور توانائی کی ضرورت ہوگی، گرڈ پر کل بوجھ 4.8 ٹیراواٹ آور ہوگا جو کہ اس وقت پاکستان کے غیر استعمال شدہ بجلی کا 12 فیصد تھا۔ اس سے فی یونٹ کیپیسیٹی پیمنٹ کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو 1.47 بلین کلو گرام فی سال تک محدود کرنا ہے۔

اس کے بعد تیل کے درآمدی بل پر بچت ہوتی ہے، مطالعہ کے مطابق سڑکوں پر چلنے والی 5 لاکھ الیکٹرک گاڑیاں فیول کی درآمد پر سالانہ نصف بلین ڈالر کی بچت کریں گی۔

مستقبل کے حوالے سے XWDISCOs اور کے الیکٹرک نے بھی اپنے پاور ایکوزیشن پروگرام جمع کرائے ہیں جس میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر مبنی پیداوار میں اضافے کا تصور کیا گیا ہے۔ اگر بجلی کی طلب پیدا کرنے کی پالیسیوں کے ساتھ متوازی طور پر کم از کم لاگت پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے والی پالیسیاں اختیار کی جائیں تو یہ ملک کیلئے بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ ملکر گردشی قرضے کنٹرول کرنے میں مدد کرسکتے ہیں جس کا تخمینہ 5.5 ٹریلین روپے تک پہنچنے کا ہے۔

NEECA اور UNDP کا ایک اور مطالعہ ہے جس میں پتا چلا ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کی متوقع نمو عالمی سطح پر بجلی کی کل طلب میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کرے گی اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اگرچہ الیکٹرک گاڑیوں کا قومی سطح پر پاور گرڈ پر کوئی خاص دباؤ ڈالنے کا امکان نہیں ہے، لیکن یہ اس کی ڈسٹری بیوشن کو تبدیل کردے گی۔

قومی سطح پر، یہ ایک چھوٹے بوجھ کی شکل میں سامنے آئے گا۔جسے پاور نیٹ ورک ممکنہ طور پر بغیر کسی چیلنج کے جذب کر سکتا ہے۔ تاہم ڈسٹری بیوشن لیول پر یہ لوڈ کو معمول سے کم کرسکتا ہے، اس معاملے کو ڈسکوز کی سطح پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہو سکتی ہے اور کے ای پہلے ہی اس پر کام کر رہا ہے۔این ٹی ڈی سی سسٹم پر ڈسکوز کی نجکاری انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔

Comments

200 حروف