گاڑیاں بنانے والوں کو پاکستان میں ہمیشہ تجفظ حاصل رہا ہے ۔اس درآمدی صنعت کا سورج غروب نہیں ہورہا ہے ۔تین جاپانی کمپنیاں پچھلی تین چار دہائیوں سے یہاں موجود ہیں اور انہیں صرف پچھلی دہائی یا اس سے تھوڑا زائد عرصے میں مقابلے کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
سب سے پہلے حکومت نے استعمال شدہ کاروں کی درآمد کی پالیسی (2011 کے بعد) میں نرمی کی، بعدازاں ایک ایسی پالیسی کی پیروی کی گئی جس نے(2016 کے بعد) نئے آنے والوں کو سی کے ڈی مارکیٹ میں داخل ہونے کی اجازت دی اور اب سال 2021 کے بعد حکومت OEMs کو ایکسپورٹ شروع کرنے پر زور دے رہی ہے۔
جاپانی شاید اس سے خوش نہیں جیسا کہ اطلاعات ہیں جاپانی حکومت نے پاکستان کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ( ڈبلیو ٹی او) میں لے جانے کی دھمکی دی ہے ،جاپان کے مطابق پاکستان تین کار اسمبلنگ کمپنیوں کو ایکسپورٹ کرنے پر مجبور کررہا ہے ، ان کے خیال میں یہ ڈبلیو ٹی او کے قوانین کی صریحا خلاف ورزی ہے۔
تجارتی قوانین اور قانونی بحث میں پڑے بغیر حکومت پاکستان کے پاس صورتحال کنٹرول کرنے کے متعدد طریقے ہیں۔ مقامی اسمبلرز (سی کے ڈی مارکیٹ) کے تحفظ کو کم کرنےکیلئے سی بی یو اور سی کے ڈی کے ڈیوٹی ڈھانچے میں تبدیلی کی جا سکتی ہے جس پر ان تینوں جاپانی کمپنیوں کا غلبہ ہے۔
مالی سال 2007-08 میں جب کاروں کی مارکیٹ تقریباً دولاکھ یونٹس تھی ،اندازہ لگایا جارہا تھا کہ یہ بڑھ کرپانچ لاکھ یونٹس تک پہنچ جائیگی۔
اس وقت بازار میں صرف تین کمپنیاں تھیں آج یہ تعداد بہت زیادہ ہے اور استعمال شدہ کاروں کی درآمد بھی بڑھ رہی ہے۔رواں سال سی کے ڈی اور سی بی یو کی پورے سال کی فروخت ایک لاکھ 25 ہزار یونٹ سے کم ہونے کا امکان ہے ۔اس بازار میں کوئی کیسے مقابلہ کر سکتا ہے؟
کسی کا تو نقصان ہوگا، صارف کا یا کاریں بنانے والوں کا، صارف مسابقت بڑھنے سے فائدہ اٹھائے گا۔ خریدار کے ہمیشہ زیادہ آپشنز ہوتے ہیں۔
مارکیٹ ’آن‘ سے ’آف‘ کی طرف بڑھ گئی ہے، جیسا کہ حال ہی میں کمپنیوں نے قیمتوں میں 2سے2.5 فیصد کمی کردی ہے۔ دوسرے بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ بغیر کسی سود کے اقساط میں کاریں بیچ رہے ہیں۔ یہ ایسی مارکیٹ میں نہیں سنا جاتا ہے جہاں OEM عام طور پر صارفین سے ورکنگ کیپیٹل اکٹھا کرتے ہیں جبکہ ان کی اضافی نقدی کو ٹریژری انسٹرومنٹس میں لگاتے ہیں۔
جاپانیوں کے لیے مارکیٹ پر غلبہ حاصل کرنا اور پالیسیوں پر اثر انداز ہونا آسان نہیں رہا۔ وقت بدل گیا ہے۔ کمپنوں کو کچھ قیمت اداکرنی پڑی ہے۔ مثال کے طور پر ٹویوٹا میں اسمبلر کا دعویٰ ہے کہ 50 فیصد لوکلائزیشن ہے۔ تاہم اس کی تمام ٹیکسوں کی قیمت تقریباً 23,900 ڈالر ہے جو کہ متحدہ عرب امارات میں جہاں CBU درآمد کی جاتی ہے وہاں ٹیکسوں کی قیمتوں میں خالص رعایت کا محض 3 فیصد ہے اور یہ ڈیلر مارجن کو چھوڑ کرہے، اسی لئے کار دبئی میں سستی ہے۔ مگر پاکستان میں 50 فیصد لوکلائزیشن کا فائدہ کہاں ہے؟
اس قسم کے اہم سوالات بڑھتے ہوئے مسابقت کے ساتھ کم حجم والی مارکیٹ میں اٹھائے جائیں گے۔لوکلائزیشن کے کم فائدے کے ساتھ ایکسپورٹ ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ حکومت مالی سال 22 سے سی کے ڈی کی درآمدی قیمت کا محض 2 فیصد برآمد کرنے کو کہہ رہی ہے جو مالی سال 26 تک بڑھ کر 10 فیصد ہو سکتی ہے۔
کچھ چائنیز کمپنیاں مارکیٹ میں داخل ہونے والی ہیں جومکمل طور پر اسمبل شدہ کاروں کو برآمد کرنے کا تجربہ کر رہے ہیں،ان کی لوکلائزیشن بہت کم ہے لیکن وہ پھر بھی مارکیٹ میں اپنا حصہ حاصل کررہےہیں۔ دوسری جانب سی کے ڈی مارکیٹ میں سب سے بڑا جاپانی کھلاڑی حالیہ مہینوں میں کارپٹسن برآمد کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
اگر یہ برآمدی پالیسی جاری رہتی ہے تو اس بات کا اچھا موقع ہے کہ چینی کھلاڑی کچھ حصہ حاصل کر لیں گے۔چینی EVs میں بہتر ہیں لیکن دائیں ہاتھ سے گاڑی چلانے والے ممالک میں ان کی قابل ذکرکارکردگی نہیں ہے۔وہ مقامی اور برآمدی منڈی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان سے ابتدا کر سکتے ہیں،کیونکہ یہ بہتر ہو سکتا ہے۔
ایک چائینیز الیکٹرک کمپنی بی وائی ڈی پہلے ہی پاکستان ۤنے کا اعلان کرچکی ہے۔ جاپانیوں کو اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غورکرتے ہوئے کسٹمرز کی مقامی ضروریات کو ترجیح دینی چاہیے۔اگروہ موجودہ سیٹ اپ میں برآمدات نہیں کرسکتےتو وہ آٹو پارٹس بنانے میں شراکت دار بن سکتے ہیں جس کی وسیع مارکیٹ موجود ہے ۔
Comments
Comments are closed.