دبئی میں بزنس کیلئے جلد 10 سالہ گولڈن لائسنس حاصل کیا جاسکے گا
ہم سب نے متحدہ عرب امارات کے 10 سالہ گولڈن ویزا کے بارے میں سنا ہے۔ اب اس کے کاروباری ورژن پر کام ہو رہا ہے، یہ اطلاع ملی ہے کہ ملک 10 سالہ گولڈن اور پانچ سالہ سلور لائسنس مناسب قیمت پر متعارف کرانے پر غور کر رہا ہے، جو سالانہ لائسنس کی تجدید کی ضرورت کو ختم کر دے گا۔
دبئی کے تجارتی لائسنس کی قیمت فی الحال تقریباً 15,000 اماراتی درہم سے 50,000 اماراتی درہم کے درمیان ہے اور یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کاروبار کس فری زون میں کام کر رہا ہے۔ یہ ایک سال کے لیے کارآمد ہوتا ہے۔
ہر سال کاروباری اداروں کو فیس ادا کرکے اپنے لائسنس کی تجدید کرنی ہوتی ہے۔ محکمہ لینڈ سے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوتا، تمام کاروباری شراکت داروں کے لیے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی فراہم کرنی ہوتی ہے اور ضروری اجازت اور منظوری کے خطوط حاصل کرنے ہوتے ہیں۔
اگر کاروبار فری زون میں ہے تو انہیں ’نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ‘ بھی دکھانے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
کچھ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ تجارتی لائسنس کی تجدید فائل کرنے میں تاخیر جرمانے، کاروباری لائسنس پر پابندی، یا تمام کاروباری سرگرمیاں منجمد کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
حکومت پہلے ہی کاروباری لائسنس حاصل کرنے کے عمل کو آسان بنانے کے لیے کام کر رہی ہے - مثال کے طور پر، دبئی ایک ’فوری لائسنس‘ پیش کرتا ہے جو پانچ منٹ کے اندر جاری کیا جاتا ہے ۔
حالیہ برسوں میں ہر کاروبار کے لیے مقامی اماراتی پارٹنر رکھنے کی شرط کو بھی ختم کر دیا گیا ہے، اور نجی شعبے کی کمپنیوں میں ملازمین کی رہائش اور ورک پرمٹ کے طریقہ کار کو آسان بنانے کا عمل شروع کیاگیا ہے کیونکہ اب دبئی کو سعودی عرب جیسے پڑوسیوں سے مسابقت کا سامنا ہے۔
طویل مدتی لائسنس کی پیشکش دبئی کے کاروبار میں آسانی پیدا کرنے کے عمل کو کئی قدم بڑھا سکتی ہے۔
تجارتی لائسنس کے نئے ضوابط متعارف کرانے کی تجویز پر اقتصادی انضمام کمیٹی نے مارچ میں وزیر اقتصادیات عبداللہ بن طوق کی صدارت میں بحث کی تھی۔
اگرچہ اب تک معلوم نہیں کہ نئے پانچ اور دس سالہ لائسنس کب سے نافذ العمل ہوں گے، لیکن ان کا مقصد واضح ہے: حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ وہ حکومت کی آمدنی میں اضافے، کاروباری سرگرمیوں کو بڑھانے، اور پائیدار ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینے کی امید رکھتی ہے۔
گلف نیوز کے مطابق، بعض شعبوں اور صنعتوں کو ان کی سٹریٹجک اہمیت یا متحدہ عرب امارات کے معاشی تنوع کے مقاصد میں شراکت کی بنیاد پر یہ طویل مدتی لائسنس دیئے جاسکتے ہیں، جیسے کہ اس کا ویژن 2031 کا اقدام اور ماحول دوست معیشت بننا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ توقع ہے کہ اگر کمپنیاں افراد کے لیے گولڈن ویزا کے معیار پر پورا اترتی تو مجوزہ لائسنس وسیع پیمانے پر دستیاب ہونگے۔
ماہرین اس ممکنہ اقدام کو گیم چینجر قرار دے رہے ہیں۔دبئی میں مقیم کاروباری وکیل کمال جبار نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ ”طویل مدتی ویزا کا آغاز ٹیلنٹ کو راغب کرنے اور اسے برقرار رکھنے، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور استحکام کو برقرار رکھنے کے دبئی کے وژن کے مطابق ہے۔“
بروکر XTB میں MENA کے سی ای او اچراف ڈرڈ نے بھی خیالات کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ اقدام “سرمایہ کاری کی ایک اہم منزل کے طور پر اس کی حیثیت کو مستحکم کرکے دبئی کو نمایاں طور پر فائدہ پہنچانے والا ہے۔
انہوں نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ ایک تو یہ دبئی میں بیوروکریٹک طریقہ کار کو کم سے کم کرکے اور آپریشنل یقین دہانی فراہم کرکے کاروبار کرنے میں آسانی پیدا کرے گا جس سے کاروبار دوستانہ ماحول کے حوالے سے دبئی کی ساکھ مزید مضبوط ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے زیادہ غیر ملکی سرمائے کو حاصل کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے، کیونکہ سرمایہ کار اس استحکام کی طرف راغب ہوتے ہیں جو گولڈن لائسنس فراہم کرتا ہے۔ “اس طرح کا استحکام مقامی معیشت میں خاطر خواہ، طویل مدتی سرمایہ کاری کرنے کے لیے سازگار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اسکیم عالمی فرمز کو سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گی، جو جدت کو آگے بڑھانے اور عالمی مارکیٹ میں دبئی کی مسابقتی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے۔
“مجموعی طور پر، یہ دبئی کے اسٹریٹجک اقتصادی اہداف کی حمایت کرے گا، جس میں اس کا 2033 تک سرمایہ کاری اور ہنر کے لیے ایک سرکردہ شہر بننے کا وژن شامل ہے، جس کا مقصد عالمی کاروباری مرکز کے طور پر مسلسل ترقی کو یقینی بنانا ہے۔
راک بینک کے گروپ سی ای او راحیل احمد نے خلیج ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ “آپ کی عمر جتنی زیادہ ہوگی، اتنا ہی آپ یقین کر سکتے ہیں کہ آپ کے پاس اپنے کاروباری ماڈل کی پائیداری ہے۔
خاص طور پر چھوٹے کاروباروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ لائسنس انہیں کام کرنے میں مزید آسانی فراہم کرے گا ۔بغیر اس خطرے کے کہ انہیں کاروبار بند کرنا پڑے گا یا چھوڑنا پڑے گا ۔ لوگوں کو اس میں کافی بہتری نظر آئے گی۔
سیڈ گروپ کے چیف ایگزیکٹیو ہشام ال گرگ نے دی نیشنل کو بتایا کہ اگر مجوزہ طویل مدتی تجارتی لائسنس جاری کئے جاتے ہیں، تو اس سے نہ صرف امارات میں کاروباری اداروں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ لیکن یہ دنیا بھر سے اسٹارٹ اپ کمیونٹی کو بھی بااختیار بنائے گا ، جو متحدہ عرب امارات کو اپنا نیا مستقل ٹھکانا بنانا چاہتے ہیں۔“ چھوٹے کاروبار اور سٹارٹ اپس کے بڑے خدشات میں سے ایک کاروبار کا تسلسل ہے اور متحدہ عرب امارات کی حکومت اس کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ اس اقدام سے انتہائی ضروری اعتماد پیدا ہو گا اور اس کے نتیجے میں معیشت میں بیرونی سرمایہ کار میں اضافہ ہو گا۔
دریں اثناء دبئی میں قائم سٹارٹ بزنس ایڈوائزری کے سی ای او گیرتھ جونز نے لنکڈ ان پر ایک پوسٹ میں کہا کہ نئے لائسنس کا مطلب یہ ہوگا کہ “انتظامی کاموں پر کم وقت اور وسائل خرچ کیے جائیں گے اور اسٹریٹجک ترقی پر زیادہ خرچ کیا جائے گا۔
اس سے بہت سوں کے لیے زندگی بہت آسان ہو جائے گی، تصور کریں، ہر سال ڈی ای ڈی (محکمہ اقتصادی ترقی) جانے کی ضرورت نہیں، یا ہر سال اب کاغذی کارروائی نہیں کرنی؟ میں اس کا مزید انتظار نہیں کر سکتا!“
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر
Comments
Comments are closed.