حقیقت یہ ہے کہ جاپانی کمپنیاں اب پاکستان میں کاروبار کو بڑھانے کے لیے مزید سرمایہ کاری میں دلچسپی نہیں لے رہی ہیں، اس سے حکومت کو اتنی پریشانی نہیں جتنی ہونی چاہیے تھی۔ جاپان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت ہے، جو پاکستان کے قریبی مالیاتی حلیف کے طور پر جانی جاتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ جاپانی سرمایہ کاروں کا بالآخر پاکستان کے نہ ختم ہونے والے سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل کے حوالے سے صبر ختم ہوگیا ہے اور انہوں نے اس ملک میں مزید سرمایہ کاری نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

شرح مبادلہ کے اتار چڑھاؤ اور مسلسل بڑھتے ہوئے اخراجات سے لے کر سیاسی عدم استحکام اور توانائی بحران تک کو جاپانیوں نے کافی طویل عرصے تک برداشت کیا ہے۔ اور اب جب کہ ان کا مقامی افراط زر طویل عرصے بعد بڑھ رہا ہے– جنوری 2007 کے بعد پہلی بارشرح سود میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ اب خطے میں زیادہ محفوظ سرمایہ کاری کو ترجیح دیں گے، یہی وجہ ہے کہ وہ اب بھی ہندوستان اور بنگلہ دیش کی مارکیٹ میں کام کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ پاکستان کے ساتھ آہستہ آہستہ پرانے تعلقات کو ختم کررہےہیں۔

یہی وہ وقت ہے جب حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی بجائے سہولت فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے۔ اور اگر حکومت جاپان جیسے ہیوی ویٹ کی ناراضگی اور ممکنہ روانگی سے زیادہ پریشان نہیں ہے تو وہ موجودہ صورتحال کے بارے میں اتنا سنجیدہ نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح حکمرانوں کی نااہلی کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑے گا۔

یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں، برسوں سے چین سی پیک کی وجہ سے ہمارا نمبر ون غیر ملکی سرمایہ کار رہا ہے۔ لیکن چین بھی پاکستان کے رویے سے تنگ آنا شروع ہو گیا ہے، خاص طور پر جب حکومت غیر ملکیوں کو دہشت گردوں سے بچانے میں ناکام ہو جاتی ہے تو اعلیٰ سطحی ردعمل آتا ہے ۔ برسوں سے سکیورٹی معاملات میں حکومت اور سیکورٹی فورسز ہمیشہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔

اسی رویہ کی وجہ سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو کرنٹ اکاؤنٹ کے اعداد و شمار میں شامل نہیں کیا جاتا ہے، جبکہ اسے زرمبادلہ لانے کیلئے سب سے اہم ہونا چاہیے۔ اب جاپان کا فیصلہ نہ صرف مقامی مارکیٹ کو سرمایہ کاری سے محروم کر دے گا، بلکہ یہ دوسرے سرمایہ کاروں کے لیے بھی ایک بہت برا اشارہ ہوگا، ویسے بھی غیر ملکی سرمایہ کار موجودہ ماحول میں پاکستان میں مزید سرمایہ لگانے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں، پہلے سے ہی مالی بحران کا شکار پاکستانی معیشت کیلئے یہ مزید خطرہ ہوسکتا ہے۔

بینک میں زیادہ رقم حکومت کو مالی استحکام دے گی اور آئی ایم ایف کے اگلے بیل آؤٹ پروگرام کے تعین میں مدد کرے گی۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے شرائط کو قبول کرنا ہی ہوگا، یہاں حکومت کے پاس شرائط نہ ماننے کا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔

حکومت سے ایک بار پھر پوچھا جانا چاہیے کہ اس خبر نے اسلام آباد میں پریشانی کی لہر پیدا کیوں نہیں کی؟ متعلقہ وزارت نے جاپانی سرمایہ کاروں کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ اور کوئی بھی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کیوں نہیں کر رہا کہ یہ رجحان مزید نہ پھیلے؟ یہ کافی برا ہے کہ چیزیں اتنی خراب ہوچکی ہیں۔ لیکن یہ زیادہ برا ہے کہ اب بھی کوئی اس کے بارے میں کچھ نہیں کر رہا ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر

Comments

Comments are closed.