رائے

عالمی تنازعات اور غیر یقینی اقتصادی صورتحال

2024 کورونا کے وبائی مرض کے بعد کے مشکل سالوں کے مقابلے میں ایک نسبتاً پر امید دور کے طور پر ابھرا ہے۔ کورونا کے...
شائع April 5, 2024

2024 کورونا کے وبائی مرض کے بعد کے مشکل سالوں کے مقابلے میں ایک نسبتاً پر امید دور کے طور پر ابھرا ہے۔ کورونا کے نتیجے میں، عالمی معیشت کو دبائو کا سامنا کرنا پڑا، متعدد کاروبار بند ہو گئے اور ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کو بلند افراط زر کا سامنا رہا۔

ان بحرانوں کے مجموعی اثر نے عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار کو کم کردیا اورغیر یقینی صورتحال کو بڑھاوا دیا۔

عالمی تنازعات کے علاوہ، 2024 کو مختلف ممالک میں انتخابی سال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جون میں ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات کے ساتھ ، امریکا سمیت متعدد ممالک اپنے انتخابی عمل کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ پاکستان نے 8 فروری کو عام انتخابات منعقد کیے، جس کے نتیجے میں ایک منقسم مینڈیٹ ملا، جہاں کسی بھی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے واضح اکثریت حاصل نہیں ہوسکی۔ اس کے نتیجے میں، دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے مخلوط حکومت قائم کی۔

حزب اختلاف کے دھڑوں کی جانب سے انتخابی بے ضابطگیوں کے الزامات کے باوجود حکومت بن گئی اور اب کام کر رہی ہے۔ نئی بننے والی حکومت کی بنیادی توجہ معیشت کو بحال کرنے اور سماجی و اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے پر ہے۔ مخلوط حکومت کو ایک پیچیدہ جغرافیائی سیاسی منظر نامے کے درمیان معاشی استحکام اور ترقی کو فروغ دینے کے مشکل کام کا سامنا ہے۔

تقریباً ایک ماہ سے اقتدار میں رہنے کے باوجود، حکومت نے ابھی تک موجودہ معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے حل تجویز نہیں کیے ہیں۔ ریونیو جنریشن کی حکمت عملی کے حوالے سے وزیر خزانہ کی جانب سے واضح سمت کا فقدان تشویشناک ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومتی ٹیکسوں کے حق میں عدالتی فیصلوں پر انحصار کیا جا رہا ہے، جس سے ممکنہ طور پر تقریباً 1700 ارب روپے حاصل ہو سکتے ہیں۔

تاہم، یہ نقطہ نظر اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ جانچ کرنے والے افسران اکثر من مانی اور متضاد احکامات جاری کرتے ہیں۔ قانونی نتائج پر انحصار وزارت خزانہ کے اندر اسٹریٹجک منصوبہ بندی اور دور اندیشی کے وسیع تر مسئلے کو اجاگر کرتا ہے۔ حکومت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جو قانونی چارہ جوئی پر منحصر نہ ہو، اور زیادہ مضبوط اور پائیدار اقتصادی رفتار کو یقینی بنائیں۔

مزید یہ کہ وزیر خزانہ کے لیے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں میں حکومت کی کامیابی کی شرح 5 فیصد سے کم ہے۔ اگرچہ وزیر خزانہ قابل ستائش انتظامی تجربہ رکھتے ہیں، لیکن ان کے تعلیمی پس منظر میں معاشیات، عوامی پالیسی اور عوامی مالیاتی انتظام میں مہارت کی کمی ہے۔

لہذا، آمدنی پیدا کرنے کے اقدامات کرتے وقت صنعت کے ماہرین سے مشورہ کرنا دانشمندی ہوگی۔ معاشی اور مالیاتی امور میں ماہر پیشہ ور افراد کے ساتھ تعاون پالیسی سازی کے عمل کو تقویت بخش سکتا ہے ۔

ماہرین کے ساتھ مشاورت اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ پالیسیاں معاشی اصولوں اور مارکیٹ کی حرکیات کی جامع تفہیم سے تشکیل دی جائیں۔ یہ نقطہ نظر پاکستان کے معاشی چیلنجوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے مزید مضبوط اور عملی حل تیار کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

امریکا بھی 5 نومبر 2024 کو اپنے ہاں انتخابات کی تیاری کر رہا ہے۔ توقع ہے کہ ڈیموکریٹک امیدوار صدارت برقرار رکھے گا،کیونکہ ٹرمپ کو متعدد قانونی چیلنجوں کا سامنا ہے، ان کے ہش منی مقدمے کی سماعت 15 اپریل کو شروع ہونے والی ہے، ایک جج نے کیس کو مزید ملتوی کرنے سے انکار کردیا ہے۔

تاہم، ٹرمپ کی قانونی ٹیم جج جوآن مارچن کے خلاف تعصب کا الزام لگاتے ہوئے ایک درخواست دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس میں ان کی مبینہ ڈیموکریٹک وابستگیوں کی وجہ سے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا جائیگا۔

مزید برآں، ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں لوک سبھا انتخابات کے لیے 19 اپریل 2024 سے شروع چھ ہفتوں کے انتخابی شیڈول کا اعلان کیا گیا ہے۔ انتخابات سات مرحلوں میں ہوں گے، ووٹنگ یکم جون کو ختم ہوگی اور ووٹوں کی گنتی 4 جون کو ہوگی۔

یہ امر دلچسپ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنی دوسری مدت پوری کرنے کے بعد تیسری بار وزیراعطم بننا چاہتے ہیں۔ تاہم، ان کے مخالفین نے ان پر ہائی وے کے منصوبوں میں مالی بے ضابطگیوں کا الزام لگاتے ہوئے ان کی حکومت کو بدعنوان ترین حکومتوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ مزید برآں، ایک اسکینڈل جس میں مودی شامل ہیں، عطیات کو مبینہ طور پر چھپانے سے متعلق ہے، جس سے انتخابات سے قبل سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

رائٹرز کے مطابق، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 2019 سے مشکوک فنڈنگ اسکیم کا بنیادی فائدہ اٹھانے والی جماعت ہے۔ یہ اسکیم افراد اور کمپنیوں کو سیاسی جماعتوں کو لامحدود اور گمنام عطیات دینے کی اجازت دیتی ہے۔ رائٹرز نے مزید انکشاف کیا کہ جنوری 2018 اور فروری 2024 کے درمیان فروخت کیے گئے کل بانڈز کا تقریباً نصف حصہ بی جے پی کا تھا، جس کی رقم 165 ارب روپے ($1.98 بلین) تھی۔

واشنگٹن پوسٹ کی حالیہ خبر میں ہندوستانی سیاست کے بارے میں ہنگامہ خیز انکشافات کئے گئے، جس میں زیر تفتیش فرموں کو کافی عطیات کا پتہ لگایا گیا جس سے یہ بات سامنے آئی کہ کاروباری اداروں نے خفیہ طور پر ہندوستانی وزیر اعظم کی پارٹی کو کروڑوں روپے دیے۔ اس ڈیٹا لیک نے ہندوستانی سیاست کے بارے میں بے مثال حقیقت فراہم کی، جس نے 2018 سے سیاسی جماعتوں کو ہندوستانی کارپوریشنوں کی طرف سے 2 ارب ڈالر کے خفیہ فنڈنگ کا پردہ فاش کیا۔

ان فنڈز کا تقریباً نصف حکمراں بی جے پی کو ملا۔ ان انکشافات نے قومی انتخابات کے موقع پر عوامی غم و غصے کو جنم دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے مرکزی بینک آف انڈیا کو عطیہ دہندگان کی شناخت ظاہر کرنے کی ہدایت کی۔ اس حوالے سے عدالت نے بینک کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا اور جواب جمع کرانے کے لیے 12 مارچ کی آخری تاریخ مقرر کی۔ مزید برآں، عدالت نے الیکشن کمیشن کو یہ تفصیلات 15 مارچ 2024 کو شام 5 بجے تک شائع کرنے کی ہدایت کی۔

حزب اختلاف کے مظاہروں کے بعد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) جون 2024 کے اجلاس کے دوران بھارت کے لیے اپنی رپورٹ جاری کرنے والی ہے۔

بانڈز کے تنازعہ سے ہٹ کر، ہندوستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق کمزور کنٹرول کے لیے اقوام متحدہ، امریکن بار ایسوسی ایشن، اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے بین الاقوامی اداروں سے جانچ پڑتال کا سامنا ہے۔ اس جائزے سے اندازہ لگایا جائے گا کہ مالیاتی جرائم کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی معیارات پر عمل کرنے کے حوالے سے عالمی نگران کس قدر مؤثر طریقے سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک کی درجہ بندی کرتا ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Dr Ikramul Haq

The writer is a lawyer and author of many books, and Adjunct Faculty at Lahore University of management Sciences (LUMS) as well as member of Advisory Board and Visiting Senior Fellow of Pakistan Institute of Development Economics (PIDE). He can be reached at [email protected]

Huzaima Bukhari

The writer is a lawyer and author of many books, and Adjunct Faculty at Lahore University of management Sciences (LUMS), member of Advisory Board and Visiting Senior Fellow of Pakistan Institute of Development Economics (PIDE). She can be reached at [email protected]

Comments

Comments are closed.