باوجود اس کے کہ پاکستان ایک کم آمدنی والا ملک ہے جو معاشی اور سماجی مسائل کا شکار ہے، ملک میں ایک سبز انقلاب خاموشی سے جنم لے رہا ہے، اور پاکستان تیزی سے دنیا کی سب سے بڑی شمسی توانائی مارکیٹوں میں سے ایک بن کر ابھرا رہا ہے۔
برطانیہ کے توانائی سے متعلق تھنک ٹینک ایمبر کی جاری کردہ گلوبل الیکٹریسٹی ریویو 2025 کے مطابق، پاکستان نے 2024 میں 17 گیگا واٹ کے سولر پینلز درآمد کیے، جس سے وہ دنیا کے بڑے شمسی توانائی پیدا کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہو گیا۔
رپورٹ کے مطابق، سولر اب اتنا سستا ہو چکا ہے کہ صرف ایک سال میں بڑی منڈیاں ابھر سکتی ہیں، جیسا کہ پاکستان میں 2024 میں دیکھا گیا۔
مہنگی نجی تھرمل پاور کے معاہدوں کی وجہ سے بجلی کی بلند قیمتوں کے دوران، پاکستان کے گھریلو اور کاروباری شعبے میں چھتوں پر سولر انسٹالیشن میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا تاکہ کم لاگت والی بجلی حاصل کی جا سکے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار میں تقریباً ایک تہائی کا اضافہ ہوا، اور یہ نئی بجلی پیدا کرنے کے سب سے بڑے ذریعے کے طور پر ابھری۔
اس میں اضافہ 2024 میں ہر جگہ نظر آیا، چین، بھارت، برازیل، یورپی یونین جیسے بڑے ممالک سے لے کر سعودی عرب اور پاکستان جیسے نئے شمسی توانائی کی مارکیٹوں تک۔ بیٹری اسٹوریج کی لاگت میں کمی نے شمسی توانائی کی مارکیٹ کو مزید بہتر بنایا ہے۔
ایمبر نے بتایا کہ پاکستان نے 2024 میں 17 گیگا واٹ سولر پینلز درآمد کیے، جو 2023 کے مقابلے میں دوگنا ہیں۔ صرف ایک سال میں، پاکستان دنیا کی نئی شمسی تنصیب کی بڑی مارکیٹوں میں شامل ہو گیا۔
یہ اعداد و شمار اقتصادی رابطہ کمیٹی کے جاری کردہ اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہیں، جس کے مطابق پاکستان کی نصب شدہ شمسی صلاحیت 2021 میں 321 میگا واٹ سے بڑھ کر دسمبر 2024 تک 4124 میگا واٹ تک پہنچ گئی۔
دوسری طرف، پاکستان میں متبادل توانائی ذرائع کی طرف رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر سولر توانائی کو گھریلو اور کاروباری شعبوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔
اس تیزی سے بڑھتے رجحان نے پالیسی سازوں کو بجلی کے قومی گرڈ اور توانائی کے شعبے پر اس کے اثرات کے بارے میں تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، کیونکہ ملک میں بجلی کی کھپت تقریباً جمود کا شکار ہے۔
اس کے باوجود، کئی منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں اور درجنوں کمپنیاں سستی توانائی کے اس ذریعہ سے فائدہ اٹھانے کے لیے سولر پاور سسٹمز نصب کر چکی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی مثال ظاہر کرتی ہے کہ سولر پاور کی کم لاگت اور تیزی سے تنصیب کا عمل بجلی کے نظام کو غیر معمولی رفتار سے تبدیل کر سکتا ہے۔
تاہم، تھنک ٹینک نے خبردار کیا کہ پینلز کی تنصیب کے ساتھ ساتھ منظم اور پائیدار توانائی کی منتقلی کے لیے جدید نظام کی منصوبہ بندی اورریگولیٹری فریم ورک بھی ضروری ہے۔