امریکہ اور ایران کے درمیان برسوں کے تعطل کے بعد جوہری مذاکرات عمان میں شروع

12 اپريل 2025

امریکہ اور ایران نے تہران کے جوہری پروگرام پر ہفتے کے روز انتہائی اہم مذاکرات کا آغاز کیا ہے، جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی کہ اگر یہ کسی معاہدے پر منتج نہ ہوئے تو وہ فوجی کارروائی کریں گے۔

ایرانی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ فریقین عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایک ثالث کے ذریعے مذاکرات کے نئے دور میں داخل ہوئے ہیں۔ امریکہ نے ملاقاتوں کے روبرو ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔

مذاکرات کے طریقہ کار پر اختلاف نے ان دیرینہ حریفوں کے سامنے موجود چیلنج کو ظاہر کیا، جو ایک نیا جوہری معاہدہ تلاش کر رہے ہیں، اس کے بعد کہ ٹرمپ نے 2018 میں اپنی پہلی مدتِ صدارت کے دوران پچھلے معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی کر رہے ہیں جبکہ امریکی وفد کی قیادت ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کر رہے ہیں۔

ایران کے سرکاری ٹی وی کی جانب سے پوسٹ کی جانے والی ایک ویڈیو میں عراقچی نے کہا کہ ہمارا ارادہ مساوی حیثیت سے ایک منصفانہ اور باوقار معاہدے تک پہنچنا ہے۔

ایران، جو لبنان میں اپنی اتحادی حزب اللہ اور غزہ میں حماس پر اسرائیل کے شدید حملوں سے کمزور ہو چکا ہے، اپنی معیشت کو مفلوج کرنے والی وسیع پیمانے پر عائد پابندیوں سے نجات چاہتا ہے۔

ایران نے ٹرمپ کی جانب سے پابندیوں میں اضافے اور بار بار فوجی دھمکیوں کی مہم پر تنقید کے باوجود ان ملاقاتوں پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

دریں اثنا امریکہ، جو ایران کے روایتی دشمن اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، تہران کو جوہری بم بنانے کے قریب پہنچنے سے روکنا چاہتا ہے۔

وٹکوف ’سمجھوتے‘ کے لیے تیار

وِٹکوف نے اس سے قبل دی وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ ”ہمارا موجودہ مؤقف“ اس مطالبے سے شروع ہوتا ہے کہ ایران اپنا جوہری پروگرام مکمل طور پر ختم کرے — یہ وہ نقطۂ نظر ہے جسے ٹرمپ کے قریبی سخت گیر حلقے رکھتے ہیں اور جسے قبول کرنے کی توقع ایران سے بہت کم کی جاتی ہے۔

وٹکوف نے اخبار کو بتایا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم دونوں ممالک کے درمیان سمجھوتہ کرنے کے لئے کوئی دوسرا راستہ تلاش نہیں کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری ریڈ لائن یہ ہو گی آپ اپنی جوہری صلاحیت کو ہتھیاروں میں تبدیل نہیں کریں۔

ان مذاکرات کا انکشاف ٹرمپ کی جانب سے پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ میڈیا سے بات چیت کے دوران کیا گیا۔

ٹرمپ نے ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ایران ایک شاندار، عظیم اور خوش حال ملک بنے، لیکن ان کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہو سکتے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر علی شمخانی نے کہا ہے کہ تہران ایک حقیقی اور منصفانہ معاہدے کا خواہاں ہے اور اہم اور قابل عمل تجاویز تیار ہیں۔

دونوں فریقوں کے درمیان ہفتے کے روز ہونے والا رابطہ، جن کے درمیان کئی دہائیوں سے سفارتی تعلقات نہیں ہیں، امریکہ اور اسرائیل دونوں کی طرف سے فوجی کارروائی کی بار بار دھمکیوں کے بعد ہوا ہے۔

مذاکرات میں کوئی معاہدہ طے نہ ہونے کے سوال پر ٹرمپ نے بدھ کے روز کہا تھا کہ اگر اس کے لیے فوج کی ضرورت ہے تو ہم فوج رکھنے جا رہے ہیں۔

ٹرمپ کی دھمکی کے جواب میں تہران نے کہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کو ملک بدر کر سکتا ہے۔

’حکومت کی بقا‘

سنہ 2015 میں ٹرمپ نے جس معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تھی اس کا مقصد ایران کے لیے ایٹم بم کی تیاری عملی طور پر ناممکن بنانی تھی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اسے سول جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے کی اجازت دینا بھی تھا۔

برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی اس معاہدے کے دیگر فریق تھے، جن میں سے اراغچی ایک اہم معمار تھے۔

ایران، جس کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف سویلین مقاصد کے لیے ہے، نے 2015 کے معاہدے سے ٹرمپ کے دستبردار ہونے کے بعد اپنی سرگرمیاں تیز کر دی تھیں۔

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی تازہ رپورٹ میں ”شدید تشویش“ کے ساتھ ذکر کیا گیا کہ ایران کے پاس تقریباً 274.8 کلوگرام یورینیم ہے جس کی افزودگی 60 فیصد تک کی گئی ہے اور یہ ہتھیاروں کے معیار کے 90 فیصد قریب ہے۔

پیرس کی سائنس پو یونیورسٹی میں مڈل ایسٹ اسٹڈیز کے لیکچرر کریم بٹر کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں صرف جوہری پروگرام پر توجہ مرکوز نہیں کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ معاہدے میں ایران کا اپنے علاقائی اتحادیوں کی حمایت روکنا شامل ہونا چاہیے، یہ ایک دیرینہ مطالبہ ہے جو امریکہ کے خلیج میں اتحادیوں کا ہے۔

ایران کے لیے یہ حکومت کی بقا کا معاملہ ہو سکتا ہے۔

بٹر نے کہا کہ ایک اور واحد ترجیح حکومت کی بقا ہے، اور مثالی طور پر، تازہ دم ہونا، کچھ پابندیوں میں ریلیف حاصل کرنا، تاکہ ان کی معیشت کو دوبارہ چلایا جا سکے، کیونکہ حکومت کافی غیر مقبول ہو چکی ہے۔

Read Comments