حماس نے ہفتے کے روز امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ یہ کہہ کر حقائق کو مسخ کر رہا ہے کہ فلسطینی گروپ نے یرغمالیوں کو رہا کرنے سے انکار کرکے اسرائیل کے ساتھ جنگ کا انتخاب کیا ہے۔
حماس نے منگل کے روز امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز کے الزامات کے جواب میں ایک بیان میں کہا کہ یہ دعویٰ کہ حماس نے یرغمالیوں کو رہا کرنے کے بجائے جنگ کا انتخاب کیا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہے۔
برائن ہیوز نے کہا کہ حماس جنگ بندی میں توسیع کے لیے یرغمالیوں کو رہا کر سکتی تھی لیکن اس کے بجائے انکار اور جنگ کا انتخاب کیا۔
فلسطینی گروپ نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بینیامین نیتن یاہو نے ”ان اقدامات کو مسترد کیا اور جان بوجھ کر انہیں اپنے سیاسی مفادات کے لیے خراب کیا“، جس کا حوالہ انہوں نے اسرائیل میں ہونے والی تنقید سے دیا، جس میں غزہ میں قید یرغمالیوں کے اہلِ خانہ کی طرف سے بھی شامل تھی۔
اسرائیل نے منگل کے روز غزہ پر فضائی حملے دوبارہ شروع کیے ہیں جس کے بعد لڑائی میں تعطل کے دوران خالی کرائے گئے علاقوں میں فوج واپس بھیج دی گئی ہے۔
یہ صورتحال 19 جنوری کو جنگ بندی کے آغاز کے بعد حماس کے ساتھ جنگ بندی کو بڑھانے پر ہفتوں تک جاری تنازع کے بعد سامنے آئی۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی فوجی مہم حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ مزید 60 یرغمالیوں کی رہائی ، چاہے مردہ ہوں یا زندہ، کو یقینی بنائے۔
بہت سے یرغمالیوں کے اہل خانہ نے اس کے بجائے جنگ بندی کی دوبارہ درخواست کی ہے، اور یہ نوٹ کیا ہے کہ بیشتر یرغمالیوں کی رہائی جنگ بندی کے دوران ہی ہوئی ہے۔
حماس نے اپنے بیان میں امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ حملہ آور کو متاثرہ شخص سے تشبیہ دے رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی بیانات سے ایک بار پھر ہمارے عوام کے خلاف جارحیت میں اس کی مکمل ملی بھگت اور غزہ میں 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی، بھوک اور محاصرے میں قابض افواج کے ساتھ ملی بھگت کا انکشاف ہوتا ہے۔