غزہ میں اسرائیلی فوج کے شدید حملے، 326 فلسطینی شہید

  • اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی یرغمالیوں کو رہا نہ کرنے پر حماس کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت
اپ ڈیٹ 18 مارچ 2025

اسرائیلی فضائی حملوں نے غزہ میں تباہی مچا دی، فلسطینی وزارت صحت کے مطابق منگل کے روز 326 افراد شہید ہوگئے، جس سے دو ماہ کی جنگ بندی کے مکمل خاتمے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے، جبکہ اسرائیل نے باقی یرغمالیوں کو آزاد کرانے کے لیے طاقت کے استعمال کا عندیہ دیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے فوج کو حماس کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت دی، کیونکہ گروپ نے یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کی تجاویز کو مسترد کر دیا تھا۔

وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل اب حماس کے خلاف فوجی طاقت کے ساتھ کارروائی کرے گا۔

شدید بمباری کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ کے متعدد علاقوں کے رہائشیوں کو انخلا کے احکامات جاری کیے۔

دوسری جانب، حماس نے اسرائیل پر جنگ بندی معاہدے کو ختم کرنے کا الزام لگایا، جس کے باعث اب بھی غزہ میں موجود 59 یرغمالیوں کا مستقبل غیر یقینی ہے۔

اسرائیل کا حماس پر دباؤ ایسے وقت میں بڑھا ہے جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے، جو عالمی منڈیوں میں تیل فراہم کرنے والا ایک اہم علاقہ ہے۔ اس تنازع نے لبنان، یمن اور عراق تک اثرات پیدا کر دیے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز کہا کہ وہ حوثیوں کے بین الاقوامی جہازوں پر مزید حملوں کے لیے ایران کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے، جبکہ ان کی انتظامیہ نے یمن میں امریکی فوجی کارروائیوں کو بڑھا دیا ہے۔

غزہ میں کئی مقامات پر اسرائیلی حملوں کی اطلاعات ہیں۔

فلسطینی وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔

اسرائیلی فوج کے مطابق، درجنوں اہداف کو نشانہ بنایا گیا اور حملے جاری رہیں گے، جس سے زمینی فوجی کارروائی کے دوبارہ آغاز کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

یہ حملے حالیہ ہفتوں میں کیے گئے ڈرون حملوں سے کہیں زیادہ شدید ہیں، اور 19 جنوری کو طے پانے والی جنگ بندی میں توسیع کی ناکام کوششوں کے بعد کیے گئے ہیں۔

اسرائیل نے حماس اور اس کے اتحادی حزب اللہ کو کمزور کیا ہے، ان کے کئی رہنماؤں کو قتل کیا، اور یمن میں حوثیوں پر حملے کیے، جو ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کے مزاحمتی محور کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔

مرنے ہونے والوں میں حماس کے سینئر رہنما محمد الجماسی اور ان کے خاندان کے افراد بھی شامل ہیں، جو ان کے غزہ شہر میں واقع گھر پر فضائی حملے میں مارے گئے۔

کل ملا کر، کم از کم پانچ سینئر حماس رہنما اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ مارے گئے۔

15 ماہ سے جاری بمباری سے متاثرہ اسپتالوں میں لاشوں کے انبار لگ گئے، سفید چادروں میں لپٹی خون آلود لاشیں اسپتالوں میں لائی جا رہی ہیں، جبکہ کئی زخمیوں کو نجی گاڑیوں کے ذریعے اسپتال منتقل کیا گیا۔

رفح میں ایک ہی خاندان کے 16 افراد کے جاں بحق ہونے کی بھی اطلاع ملی ہے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 254 ہو چکی ہے۔

واشنگٹن میں، وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے تصدیق کی کہ اسرائیل نے ان حملوں سے پہلے امریکی انتظامیہ سے مشاورت کی تھی۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان برائن ہیوز کے مطابق حماس یرغمالیوں کو رہا کر کے جنگ بندی بڑھا سکتی تھی، لیکن اس نے جنگ کو ترجیح دی۔

غزہ میں عینی شاہدین کے مطابق، اسرائیلی ٹینکوں نے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں گولہ باری کی، جس سے کئی خاندان جنہوں نے جنگ بندی کے بعد گھروں کو لوٹنا شروع کیا تھا، دوبارہ خان یونس کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔

تعطل

قطر اور مصر کی ثالثی میں اسرائیلی اور حماس کے مذاکراتی وفود دوحہ میں موجود تھے، تاکہ جنگ بندی کے معاہدے کو بڑھانے کے لیے کوئی راستہ نکالا جا سکے۔

پہلے مرحلے میں، حماس نے 33 اسرائیلی اور 5 تھائی یرغمالیوں کو رہا کیا تھا، جس کے بدلے میں اسرائیل نے تقریباً 2000 فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا تھا۔

امریکہ کی حمایت سے، اسرائیل باقی یرغمالیوں کی واپسی کے بدلے طویل المدتی جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا تاکہ رمضان اور یہودیوں کے پاس اوور تہوار کے دوران لڑائی روک دی جائے۔

تاہم، حماس کا مؤقف تھا کہ وہ مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کے بغیر مزید مذاکرات نہیں کرے گی۔

دونوں فریقین نے ایک دوسرے پر جنوری کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا، لیکن جنگ کا دوبارہ آغاز اب تک روکا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج نے منگل کی صبح کیے گئے حملوں کی تفصیلات جاری نہیں کیں، لیکن فلسطینی حکام اور عینی شاہدین کے مطابق، غزہ کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔

غزہ میں لاکھوں لوگ پہلے ہی عارضی پناہ گاہوں یا تباہ شدہ عمارتوں میں رہنے پر مجبور ہیں، جبکہ 15 ماہ سے جاری جنگ نے شہر کو کھنڈر بنا دیا ہے۔

یہ لڑائی 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوئی جب ہزاروں حماس جنگجوؤں نے اسرائیلی علاقوں پر حملہ کیا، جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک اور 251 یرغمال بنا لیے گئے۔

جواب میں اسرائیل نے ایک وسیع فوجی مہم شروع کی، جس میں فلسطینی حکام کے مطابق اب تک 48,000 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، جبکہ غزہ کی بیشتر رہائشی عمارتیں، اسپتال اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔

Read Comments