سپریم کورٹ نے سپر ٹیکس پر حکومت سے وضاحت طلب کرلی

سپریم کورٹ نے حکومت سے دریافت کیا کہ 2015 کے فنانس ایکٹ کے تحت نافذ سپر ٹیکس سے اب تک کتنی رقم جمع کی گئی اور کیا اس کی وصولی تاقیامت جاری رہے گی؟

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 4 بی کے خلاف دائر 354 درخواستوں پر سماعت کی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ حکومت کے پاس کوئی منصوبہ تھا کہ کتنی رقم جمع ہوگی، کتنی خرچ کی جائے گی، اور عارضی طور پر بے گھر افراد (ٹی ڈی پیز) کی بحالی کے لیے کتنی ضرورت تھی؟

جسٹس محمد علی مزہر نے کہا کہ سپر ٹیکس ایک بار لگایا گیا لیکن ہر سال اسے چیلنج کیا جاتا ہے۔ ایف بی آر کے وکیل رضا ربانی نے مؤقف اختیار کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ مسلسل جاری ہے، اور متاثرین کو معاوضہ دینا ضروری ہے۔ تاہم، 100 سے زائد درخواست گزاروں کے وکیل مخدوم علی خان نے استفسار کیا کہ اگر دہشت گردی 2020 میں ختم نہیں ہوئی تو اس سال سپر ٹیکس کی وصولی کیوں روکی گئی؟

عدالت نے قومی فنڈز کے صوبوں میں تقسیم کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر یہ ٹیکس قومی فنڈ میں جمع ہوا ہے تو اسے تمام صوبوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔

پنجاب کے ٹیکس دہندگان کے وکیل اعجاز احمد اعوان نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت نے 2015 میں آپریشن ضربِ عضب کے باعث بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی کے لیے یہ ٹیکس لگایا تھا، جو تین سے چار فیصد کی شرح سے امیر افراد اور کمپنیوں پر عائد کیا گیا۔ تاہم، سوشل ویلفیئر کا معاملہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کا اختیار ہے، اس لیے وفاقی حکومت کا یہ اقدام غیر آئینی ہے۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 12 مارچ تک ملتوی کر دی۔

Read Comments