پاکستان کا اسٹریٹجک محل وقوع: حقائق کی جانچ پڑتال

01 مارچ 2025

جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے چوراہے پر پاکستان کا تزویراتی محل وقوع بلاشبہ اسے رابطے اور تجارتی نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لئے اچھی پوزیشن میں رکھتا ہے، جو پاکستان اور خطے کے لئے اسٹریٹجک اہمیت کے مرکز کے طور پر امکان پیش کرتا ہے۔

اس کے علاوہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک اہم حصہ ہے، جس میں بنیادی ڈھانچے اور رابطوں میں اضافہ ہے جو وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کو فروغ دے سکتا ہے۔

ظاہری طور پر یہ سب پاکستان اور خطے کے لئے قابل قدر اہمیت کے امکانات پیش کرتے ہیں۔

اور یہ بالکل صحیح ہے، پاکستان اس بیانیے پر سرمایہ کاری کو ملک میں لانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سرمایہ کاروں نے اس بیانیے کو کتنا تسلیم کیا ہے، ایک ایسا سوال ہے جس کا حقیقت پسندانہ جواب ضروری ہے۔ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی کمی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس بیانیے کو تسلیم کرنے والے کم ہیں۔

زمینی حقائق کو پیش کرنے سے عاری الگ تھلگ بیانیہ تشکیل دینا بے معنی ہے۔ سرمایہ کاروں کو قائل کرنے کے لئے سازگار ماحول فراہم کرنا آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ زمینی حقائق کچھ روشنی ڈالتے ہیں کہ اس بیانیے کو ماننے والے صرف چند سرمایہ کار ہی کیوں ہیں۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے درمیان دوروں، سرمایہ کاری مذاکرات اور دیگر معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے تاکہ ایک اہم تجارتی اور ٹرانزٹ مرکز کے طور پر پاکستان کی تزویراتی حیثیت سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور زمین بند (لینڈ لاک) وسطی ایشیائی ریاستوں کو عالمی منڈی سے جوڑا جا سکے۔ پاکستان کی جانب سے سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے اقتصادی سفارتکاری پر زور دینے کے ایک حصے کے طور پر تجارت، توانائی اور دفاعی تعلقات پر متعدد بار بات چیت ہوئی ہے۔

تاہم پاکستان اور ازبکستان کے درمیان باہمی تجارت کا حجم محض 400 ملین ڈالر ہے جس کا ہدف مستقبل قریب میں 2 ارب ڈالر تک ہے۔ پاکستان کا دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ دوطرفہ تجارت کا حجم بھی چند ملین میں ہے۔

23-2022 میں پاکستان اور کرغزستان کی باہمی تجارت کا حجم 139.33 ملین ڈالر رہا جس میں تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں ہے۔ قازقستان کو برآمدات 132.73 ملین ڈالر اور درآمدات 5.58 ملین ڈالر تھیں۔

تاجکستان کے ساتھ یہ 24.68 ملین ڈالر ہے جس میں پاکستان کی تاجکستان کو 23.63 ملین ڈالر کی برآمدات جبکہ پاکستان کی درآمدات 1.3 ملین ڈالر ہیں۔ ترکمانستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت 8.41 ملین ڈالر رہی جس میں پاکستان کی برآمدات 2.234 ملین ڈالر اور درآمدات 6.17 ملین ڈالر رہیں۔

یہ کم تجارتی حجم قابل فہم ہے کیونکہ وسطی ایشیا کے ممالک صنعتی یا ٹیکنالوجی پر مبنی معیشتیں نہیں ہیں۔ وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے قابل قدر اضافہ توانائی اور معدنی وسائل کی وافر مقدار ہے اور جن سے پاکستان توانائی کی کمی کا شکار ہے۔

پاکستان، چین، کرغیز جمہوریہ اور قازقستان نے 9 مارچ 1995 کو چہار فریقی ٹریفک اور ٹرانزٹ معاہدے (کیو ٹی ٹی اے) پر دستخط کیے۔ یہ چین، پاکستان، کرغزستان اور قازقستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریفک اور تجارت کو آسان بنانے کے لئے ایک ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ ہے۔ یہ وسطی ایشیا اور بحیرہ عرب میں پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے درمیان ایک موثر رابطہ نیٹ ورک فراہم کرتا ہے۔ چین نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا اور اس خطے کے ساتھ اس کی تجارت تقریباً 100 بلین امریکی ڈالر ہے۔

اس کے بعد ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت (تاپی) گیس پائپ لائن منصوبہ ہے۔

تاپی منصوبے کا مقصد ترکمانستان میں گلکنیش گیس فیلڈ سے قدرتی گیس افغانستان کے راستے پاکستان اور بھارت لانا ہے۔ تاپی منصوبہ حکومت پاکستان کے انرجی سیکورٹی پلان کا حصہ ہے۔

پاکستان کی پوزیشن اپنے ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران کے ساتھ بھی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ جہاں مغرب، چین اور بھارت افغانستان کے وسیع معدنی وسائل کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں، پاکستان کی رسائی صرف چند ملین ڈالر کے اجناس کی تجارت تک محدود ہے۔ ایران کے ساتھ، پاکستان-ایران گیس پائپ لائن جو بہت ضروری ہے، دہائیوں سے التوا کا شکار ہے۔

پاکستان کی جنوبی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات بھی زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ سارک کے عملی طور پر ختم ہونے کے بعد، جو کچھ تھوڑا بہت تھا وہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات کا آغاز ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے، جس سے پاکستان کو جنوبی خطے میں اپنی حیثیت مضبوط کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔

پاکستان اندرونی اور بیرونی چیلنجز کی وجہ سے اپنے تزویراتی محل وقوع سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ اسے اپنی سرحدوں کی دونوں جانب کشیدگی اورسیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان علاقائی کشیدگی نے دوطرفہ تجارت اور جنوبی ایشیا میں پاکستان کے وسیع تر اقتصادی تعاون اور رسائی کو روک دیا ہے۔ بھارت جنوبی ایشیا کو اپنی ہوم مارکیٹ سمجھتا ہے اور خطے میں پاکستان کو قدم جمانے سے روکتا ہے۔

افغانستان میں برسوں سے جاری سیاسی عدم استحکام اور سیکورٹی خدشات کی وجہ سے وسطی ایشیائی ریاستوں تک تجارتی راستوں اور رسائی میں خلل پڑا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی ان چیلنجزمیں اضافہ کرتی ہے۔

ایران پر برسوں سے عائد امریکی پابندیوں نے ایران کے ساتھ پاکستان کے کسی بھی بامعنی اقتصادی تعلقات کو کمزور کر دیا ہے۔

ان تمام چیلنجز میں پاکستان میں سلامتی سے متعلق تشویش بھی شامل ہے، جو اس کی اقتصادی اور سفارتی رسائی کو کمزور کر رہی ہے۔

انہی وجوہات کی بنا ء پر پاکستان سی پیک اور نئے گوادر ہوائی اڈے کی جانب سے پیش کردہ بہترین مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہا ہے۔ ان دونوں اثاثوں کا استعمال کم سے کم ہے.

اس میں کوئی شک نہیں کہ خطے میں پاکستان کا تزویراتی محل وقوع ایک اقتصادی مرکز کے طور پر اہم ہے لیکن یہ غیرفعال ہے، تاہم صرف یہ بیانیہ قابل قبول نہیں ہے۔ اس کے لیے پاکستان کی سرحدوں کے شمال اور جنوب میں پیدا ہونے والی سیاسی رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا تاکہ پاکستان اور پورے خطے کی خوشحالی اور سلامتی کو بہتر بنایا جا سکے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Read Comments