سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ قرار دے کہ صدر کو آئین کے آرٹیکل 200(1) کے تحت بغیر کسی واضح عوامی مفاد کے، ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں ججوں کے تبادلے کا مکمل اور غیر محدود اختیار حاصل نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ ) کے پانچ ججوں – جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، اور جسٹس سمن رفعت امتیاز – نے جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی، جس میں لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹس سے ججوں کے تبادلوں اور ان کی سینیارٹی کو چیلنج کیا گیا ہے۔
انہوں نے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت صدر، وفاق، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان، سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس (سوائے خیبر پختونخوا) کے رجسٹرارز، اور تین ججوں – جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف – کو فریق بنایا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ صدر کے آرٹیکل 200(1) کے تحت اختیارات کو آرٹیکل 175A کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے، تاکہ ججوں کی تقرری میں جوڈیشل کمیشن کا اختیار متاثر نہ ہو۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ججوں کے تبادلوں کا نوٹیفکیشن غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جائے کیونکہ یہ عوامی مفاد کو ظاہر نہیں کرتا۔
درخواست میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ آیا تبادلے کا نوٹیفکیشن عوامی مفاد میں تھا یا کسی اور مقصد کے لیے کیا گیا؟ نیز، کیا ان مستقل تبادلوں نے ججوں کی سینیارٹی کو متاثر کیا؟
یکم فروری 2025 کو لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹس کے تین ججوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں منتقل کیا گیا، مگر انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے نیا حلف نہیں لیا۔
درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ تبادلے پہلے سے تعینات ججوں کو کمزور کرنے اور انتظامی اختیارات نئے ججوں کو دینے کے لیے کیے گئے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سابق چیف جسٹس عامر فاروق نے بھارتی عدالتی نظیر کا حوالہ دیا مگر یہ ذکر نہیں کیا کہ بھارت میں تبادلے کے بعد نیا حلف لازمی ہوتا ہے۔
درخواست گزاروں نے متبادل طور پر استدعا کی کہ تبادلہ شدہ ججوں کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے طور پر تسلیم نہ کیا جائے جب تک وہ نیا حلف نہ اٹھائیں۔ نیز، ان کی سینیارٹی کا تعین ان کے حلف اٹھانے کی تاریخ سے کیا جائے۔
انہوں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے جاری کردہ سینیارٹی لسٹ اور دیگر احکامات کو کالعدم قرار دیا جائے، کیونکہ یہ آئین اور عدالتی نظیروں کی خلاف ورزی ہیں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025