وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مالیاتی امور سے متعلق اعداد و شمار وزارت خزانہ نے مالی سال 25-2024 کے پہلے چھ ماہ کے لیے جاری کر دیے ہیں۔ جس کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے عوامی مالیات کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے، جو مالی سال 24-2023 کے پہلے نصف کے نتائج کے مقابلے میں کافی بہتر ہے۔
مجموعی بجٹ خسارہ 2.3 فیصد سے کم ہو کر 1.2 فیصد رہ گیا ہے، جبکہ بنیادی فاضل (پرائمری سرپلس) 1.7 فیصد سے بڑھ کر 2.9 فیصد ہو گیا ہے۔ اس بڑی بہتری کی وجوہات کی نشاندہی کرنا ضروری ہے۔
مزید خوشخبری یہ ہے کہ دسمبر 2024 کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں طے شدہ متعدد مقداری کارکردگی کے معیار اور اشاریہ اہداف کامیابی سے حاصل کیے گئے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
(i) پرائمری سرپلس کی کم از کم حد 2,877 ارب روپے مقرر کی گئی تھی، جبکہ اصل پرائمری سرپلس 3,603 ارب روپے رہا۔
(ii) چاروں صوبوں کے مجموعی کیش سرپلس کی کم از کم حد 750 ارب روپے مقرر تھی، جبکہ اصل صوبائی کیش سرپلس 775 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
(iii) صوبائی ٹیکس آمدن کی کم از کم حد 376 ارب روپے رکھی گئی تھی، جبکہ اصل آمدن اس سے کہیں زیادہ 443 ارب روپے رہی۔
تاہم، ایک اہم اشاریہ ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا، اور وہ ہے ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) کی ٹیکس آمدن۔ پہلے چھ ماہ کے لیے محصولات کا کم از کم ہدف 6,009 ارب روپے تھا، جبکہ اصل وصولی 5,624 ارب روپے رہی۔
عوامی مالیات سے متعلق متعدد دیگر اہداف کی کارکردگی کا اندازہ غیر تقسیم شدہ (ڈس ایگریگیٹڈ) معلومات کی عدم دستیابی کی وجہ سے نہیں لگایا جا سکا۔ تاہم، کچھ ایسے شعبے ہیں جو اب بھی تشویش کا باعث ہیں، جنہیں درج ذیل میں اجاگر کیا جا رہا ہے:
پہلا، پرائمری سرپلس میں غیر معمولی اضافہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے وفاقی حکومت کو 25-2024 کی پہلی سہ ماہی میں 2,500 ارب روپے کے منافع کی یکمشت منتقلی کے باعث ہوا۔
یہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 157 فیصد کا بڑا اضافہ ہے۔ اس فرق کی مالیت 1,528 ارب روپے ہے، جو کہ جی ڈی پی کے 1.2 فیصد کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پرائمری سرپلس میں جی ڈی پی کے 1.2 فیصد کا اضافہ ہوا، جو 24-2023 کے پہلے نصف میں 1.7 فیصد تھا اور 25-2024 میں 2.9 فیصد ہو گیا۔
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ انتہائی زیادہ شرح سود نے بجٹ خسارے اور بنیادی خسارے میں اضافہ کیا، کیونکہ قرضوں کی خدمت (ڈیٹ سروسنگ) میں زبردست اضافہ ہوا۔ اب، وقت گزرنے کے ساتھ، بینکوں کے مابین قرضے لینے کے سود کی شرح میں اضافے کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کے بڑے منافع کا مثبت اثر نظر آ رہا ہے۔
بجٹ خسارے کی مالی معاونت کی طرف آتے ہوئے، ایک پریشان کن پیش رفت سامنے آئی ہے۔ خالص بیرونی قرضوں کا بہاؤ منفی ہو کر مائنس 79 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے قرضوں کا حصول، خاص طور پر کثیر الجہتی (ملٹی لیٹرلز) اور دو طرفہ (بائی لیٹرلز) ذرائع سے، بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی مقدار سے کم رہی۔ یہ 24-2023 کے پہلے نصف میں 608 ارب روپے کے بڑے مثبت خالص بیرونی مالی معاونت کے برعکس ایک چونکا دینے والی تبدیلی ہے۔
مالی سال 25-2024 کے وفاقی بجٹ میں یہ مفروضہ تھا کہ خالص بیرونی قرضے کا بہاؤ 666 ارب روپے تک ہوگا۔ بیرونی مالی معاونت میں یہ کمی آئی ایم ایف کے لیے تشویش کا باعث ہو سکتی ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ ایف بی آر کے محاصل (ریونیو) میں 385 ارب روپے کی کمی ہے۔ پہلے چھ ماہ میں ٹیکس آمدن کی شرح نمو 25.8 فیصد رہی، جو کہ بجٹ میں مقرر کردہ 39.3 فیصد کے ہدف سے کم ہے۔
سب سے بڑا خسارہ کسٹمز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس میں ہے۔ اگر 25-2024 کے دوسرے نصف میں بھی قریباً 26 فیصد کی شرح نمو جاری رہی تو اس سال ایف بی آر کی آمدنی 11,730 ارب روپے تک پہنچے گی، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ 1,240 ارب روپے کا بڑا خسارہ ہو گا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا آئی ایم ایف اس فرق کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کا مطالبہ کرے گا؟
خرچوں کی روک تھام کے حوالے سے کچھ اچھی خبریں بھی ہیں۔ خاص طور پر، 25-2024 کے لیے پنشنوں کی بجٹ میں رکھی گئی شرح نمو 25.6 فیصد تھی، جو کہ بجٹ میں اعلان کردہ اضافے کے مطابق تھی۔ پہلی ششماہی میں اصل شرح نمو صرف 11.4 فیصد رہی۔ کیا ادائیگیوں میں کچھ تاخیر ہوئی ہے؟
اخراجات میں دوسری کمی سبسڈیز میں دکھائی گئی ہے۔ 25-2024 کے لیے سبسڈیز کی بجٹ میں رکھی گئی شرح نمو 27.7 فیصد تھی، جبکہ اصل شرح نمو منفی 36.8 فیصد رہی۔ کیا پاور سیکٹر، خاص طور پر، بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے اور مالی معاونت کی ضرورت کو کم کر رہا ہے؟
صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کی بات کرتے ہوئے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مجموعی طور پر انہوں نے 2024 کے دسمبر تک آئی ایم ایف پروگرام کے دو اہداف—ٹیکس آمدنی اور کیش سرپلس—کو پورا کیا ہے۔
تاہم، ایسا لگتا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے صوبوں کو کی جانے والی منتقلی میں غیر معمولی 37.1 فیصد کی شرح نمو دکھائی گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں وفاقی ٹیکسز کے تقسیم کے پول کی شرح نمو 25.8 فیصد رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 275 ارب روپے کی اضافی منتقلی کی گئی ہے جس کی وجوہات واضح نہیں ہیں۔
آخرکار، یہ ضروری تھا کہ ایک واضح انتخاب کیا جائے جس میں معیشت کی ترقی کی صلاحیت کو بڑھانے کی بجائے استحکام کو ترجیح دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے بجٹ خسارے کو کنٹرول کرنے کے لیے ترقیاتی اخراجات کی سطح کو سختی سے محدود کیا ہے۔ 25-2024 کے پہلے چھ ماہ میں پی ایس ڈی پی منصوبوں پر اصل اخراجات صرف 133 ارب روپے تھے، جب کہ سال کے لیے بجٹ کا ہدف 1400 ارب روپے تھا۔
مجموعی طور پر25-2024کے پہلے نصف کے مالیاتی نتائج زیادہ تر مثبت ہیں، خاص طور پر ایک بہت بڑے پرائمری سرپلس پیدا کرنے کے حوالے سے۔ تاہم، کچھ کمزور شعبے بھی ہیں، جیسے ایف بی آر کی آمدنی میں کمی، جن پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہو گی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025