الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) میں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، جس میں درخواست کی گئی ہے کہ انہیں قانون ساز اسمبلی کے آئینی اختیارات کے خلاف قرار دیا جائے۔
پٹیشن میں متنبہ کیا گیا ہے کہ پیکا کی توسیع ریاستی سنسرشپ کا باعث بن سکتی ہے اور سیاسی مخالفین، صحافیوں اور کارکنوں کے خلاف قانونی کارروائی کو نشانہ بناسکتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں، میڈیا تنظیموں اور شہری حقوق کے گروپوں نے اس قانون کی وسیع پیمانے پر مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ آزاد اظہار رائے کو محدود کرتا ہے اور ڈیجیٹل حقوق پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔
ترمیم شدہ دفعات آن لائن جھوٹی معلومات پھیلانے پر سخت سزائیں متعارف کراتی ہیں، غلط معلومات پھیلانے پر 3 سال قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا شامل ہے۔
ان ترامیم میں سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (ایس ایم پی آر اے)، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) اور سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل سمیت کئی نئے ریگولیٹری ادارے بھی شامل ہیں۔
پیکا ایکٹ میں ترامیم کے خلاف درخواست شہری قیوم خان کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس میں پیکا ایکٹ میں کی گئی ترامیم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
انہوں نے عدالتِ عظمیٰ سے درخواست کی کہ وہ فوری طور پر اس ایکٹ کو کالعدم قرار دے تاکہ نئے قانونی بحرانوں سے بچا جا سکے، اور یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ موجودہ قانون، جو پچھلی حکومتوں کی طرف سے منظور کیا گیا تھا، کو آئین کی روشنی میں دوبارہ جائزہ لیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا کہ ہم گلوبل ولیج میں رہتے ہیں جہاں تمام انسانوں کے یکساں انسانی حقوق ہیں، اور مخالفین کو تکلیف پہنچانا اور ان کو نشانہ بنانا برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
گزشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ نے پی ای سی اے کی مختلف شقوں پر عمل درآمد فوری طور پر معطل کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی۔