آئیے اپنے مینگرووز کی حفاظت کریں

کراچی کے مضافات میں تیزرفتار اور بے لگام شہری آباد کاری، ساتھ ہی صنعتی ترقیات نے منگروو کے حیاتیاتی ماحول کو نمایاں...
01 فروری 2025

کراچی کے مضافات میں تیزرفتار اور بے لگام شہری آباد کاری، ساتھ ہی صنعتی ترقیات نے منگروو کے حیاتیاتی ماحول کو نمایاں طور پرنقصان پہنچایا ہے۔ غیرصاف شدہ صنعتی فضلے سے ہونے والی آلودگی، جنگلات کی کٹائی اور رہائشی ترقی کے لیے اراضی کے حصول نے مینگروو کے نشوونما پانے والے علاقوں کا رقبہ مزید کم کردیا ہے۔

اب لینڈ ڈویلپرز کی جانب سے کراچی کی ساحلی پٹی پر شہری آبادیاں بسانے کے لیے مزید بھرپوراقدامات کیے جا رہے ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں مینگرووز اور شہر کے ماحولیاتی نظام کو مزید نقصان پہنچے گا۔ یہ کراچی شہر کی حفاظت کے لیے سرخ جھنڈا لہرانے کا وقت ہے۔

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے شہروں میں سے ایک ہے، جس میں 25 ملین سے زیادہ شہریوں کو چند اہم ماحولیاتی چیلنجوں کا سامنا ہے. یہ عالمی سطح پر سب سے کم سبزے والے بڑے شہروں میں سے ایک ہے، جہاں درختوں کی چھتری کی کوریج 0.5 فیصد سے بھی کم ہے، جو عالمی شہری اوسط 10-20 فیصد سے کافی کم ہے۔

شہری سبزہ زار کی کمی آب و ہوا کے خطرات، خراب ہوا کے معیار اور شہر کی مجموعی طور پر رہنے کی قابلیت کو بڑھاتی ہے، جس سے شہری حکام کے لئے خاص طور پر یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ سرسبز، زیادہ پائیدار کراچی کے لئے تبدیلی کے اقدامات اپنائیں۔

منگروو درخت قدرت کی ایک نایاب تخلیق ہیں۔ یہ زمین اور سمندر کے درمیان نایاب، شاندار اور بھرپور ماحولیاتی نظام ہیں۔ یہ غیر معمولی ماحولیاتی نظام دنیا بھر میں ساحلی کمیونٹیز کی فلاح، غذائی تحفظ اور حفاظت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک بھرپور حیاتیاتی تنوع کی حمایت کرتے ہیں اور مچھلیوں اور کیکڑے کے لیے ایک قیمتی پرورش کی جگہ فراہم کرتے ہیں۔

منگروو طوفانی لہروں، سونامی، سمندر کی سطح میں اضافے اور کٹاؤ کے خلاف قدرتی ساحلی دفاع کا کام بھی کرتے ہیں۔ ان کی مٹی کاربن جذب کرنے کی ایک موثر صلاحیت رکھتی ہے، جو کہ وسیع مقدار میں کاربن کو ذخیرہ کرتی ہے۔

اس کے باوجود منگروو درخت عالمی سطح پر جنگلات کی کمی کے مقابلے میں تین سے پانچ گنا تیزی سے غائب ہو رہے ہیں، جس کے سنگین ماحولیاتی اور سماجی و اقتصادی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ موجودہ اندازوں کے مطابق گزشتہ 40 برسوں میں منگروو کا رقبہ نصف ہو چکا ہے۔ یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ دنیا کے منگروو جنگلات کا تین چوتھائی حصہ خطرے میں ہے اور ان پر انحصار کرنے والے تمام آبی اور زمینی جاندار بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

اسی وجہ سے یونیسکو بائیواسفیئر ریزرو، گلوبل جیو پارکس اور قدرتی عالمی ثقافتی ورثے کے مقامات کے نیٹ ورکس کے ذریعے انہیں اور دیگر قیمتی بلیو کاربن ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے کام کر رہا ہے۔ سندھ کے مینگرووز کو ان مقامات میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

سندھ میں مینگروو ماحولیاتی نظام ہزاروں برسوں سے موجود ہے، جو متنوع جنگلی حیات کے لئے اہم رہائشی ماحول فراہم کرتا ہے اور ساحلی کٹاؤ کے خلاف قدرتی رکاوٹوں کے طور پر کام کرتا ہے اور زمین کی مقامی برادریوں کے لئے ذریعہ معاش کا ذریعہ ہے۔

کراچی جو کہ حال ہی تک اپنے ساحلی پٹی کے آس پاس گھنے منگروو جنگلات سے سرسبز تھا، اس کا ایک بڑا حصہ دور دراز علاقوں سے آنے والے پرندوں کے لیے پناہ گاہ تھا۔ ایک شاندار منظر نظر آتا تھا جب ہزاروں پیلیکن پرندے سائبیریا سے آکر اس علاقے میں گھونسلے بناتے تھے۔ لیکن اب وہاں یہ نظارے دکھائی نہیں دیتے۔

مینگرووز کی کٹائی نے کراچی کے شہریوں کو ہوا کے بہتر معیار کے حق سے محروم کر دیا ہے، مقامی برادریوں کو ان کے ذریعہ معاش اور پرندوں کو ان کی رہائش گاہوں سے محروم کر دیا گیا ہے - جو ملک کی خاموش اکثریت کی قیمت پر اشرافیہ کے قبضے کی ایک اور واضح مثال ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کے زیر اہتمام تیسری پاکستان کلائمیٹ کانفرنس 2025 سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مینگروو شجرکاری سے سندھ حکومت کو کاربن کریڈٹ کے ذریعے تقریبا 50 ملین ڈالر کی آمدنی ہوئی ہے۔

وزیراعلیٰ نے ایک اور منصوبے پر روشنی ڈالی وہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے 10 ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلے دو جنگلاتی بلاکس کی ترقی ہے جس میں ریونیو ماڈل بھی شامل ہے جس میں کاربن کریڈٹ حاصل کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔

اس منصوبے میں تقریباً 500 ملین منگروو درخت لگائے جائیں گے، جن سے توقع ہے کہ منصوبے کی مدت کے دوران 262 ملین ٹن گرین ہاؤس گیسز کو جذب کیا جائے گا، جس کے نتیجے میں ہر سال کاربن کریڈٹس سے لاکھوں ڈالر کی آمدنی حاصل ہوگی۔

کاربن کریڈٹ وہ اجازت نامے ہیں جو کمپنیوں کو کاربن ڈائی آکسائیڈ (Co2) کی ایک خاص مقدار کو خارج کرنے کی اجازت دیتے ہیں، جس میں ہر کریڈٹ ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نمائندگی کرتا ہے۔ کاربن کریڈٹ کی قیمت امریکی ڈالر میں ہوتی ہے، جس کی قیمت پروجیکٹ کی قسم، مقام اور مخصوص کاربن مارکیٹ جیسے عوامل کی بنیاد پر مختلف ہوتی ہے۔

اگرچہ بار ہا متعلقہ شہریوں اور اداروں جیسے او آئی سی سی آئی نے ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات اور آگاہی کو اجاگر کرنے کے لیے انتباہ جاری کیے ہیں لیکن حکومت کا ردعمل اور عملی اقدامات اس معاملے کی اہمیت اور فوری نوعیت کے مطابق نہیں ہیں۔

علاوہ ازیں ایک اور مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی آفات کے لیے عطیات دہندگان کی طرف سے دی جانے والی رقم کے استعمال میں شفافیت کا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے منعقدہ ورکشاپ میں ماہرین نے پاکستان میں ماحولیاتی فنڈز کے شفاف استعمال کا مطالبہ کیا تاکہ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کیا جا سکے اور عوام اور ملک کی حفاظت کی جا سکے۔

پاکستان کی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے پانچویں سب سے زیادہ حساس ملک کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے کیونکہ ملک کی سالانہ ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصان کی مالیت 4 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ ٹرانسپیرنیسی انٹرنیشل کے ماہرین نے رپورٹ کیا کہ 2022 کے سیلاب میں سندھ میں 80 فیصد فصلیں تباہ ہو گئیں جبکہ 30 ملین افراد متاثر ہوئے۔

یہ کسی بھی معیاری لحاظ سے ایک تباہی ہے جس پر سنجیدگی سے توجہ دی جانی چاہیے، جو خاص طور پر اس سرزمین کے خاموش اور نچلے طبقے کے شہریوں کو متاثر کرتی ہے جو اپنے گھر اور خود انحصار فصلوں کو کھو کر دوبارہ زندگی شروع کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

کاپی رائٹ: بزنس ریکارڈر، 2025

Read Comments