عدم توازن - اداسی کا بیج

22 جنوری 2025

یہ بہت زیادہ ہے ۔ میں اس سے باہر نکلنا چاہتا ہوں۔ کوئی وقفہ نہیں ہے۔ میں تقسم ہوگیا ہوں۔ ان تاثرات میں ایک جانی پہچانی کڑی پائی جاتی ہے۔ اندازہ لگائیں کیوں؟ بہت سے لوگ کہیں گے کہ یہ آسان ہے کیونکہ ایک شخص اتنی زیادہ برداشت نہیں کر سکتا۔ کارکن دفتر میں زیادہ وقت گزارنے سے تھک چکے ہیں اور ان کے پاس خاندان کے لئے وقت بہت کم ہے۔ غلط۔

یہ اندازہ 2019 تک درست ہوتا۔ پھر کووڈ آیا اور گھر سے کام کرنا ضروری بن گیا۔ اور پھر کچھ عرصے بعد وہی اظہار گھر میں بہت زیادہ وقت گزارنے کے لیے استعمال ہونے لگے۔ اچانک دفتر گھر سے زیادہ آرام دہ محسوس ہونے لگا۔

ذہنی توجہ اور سکون برباد ہوگئے کیونکہ گھر میں لوگ ہفتے کے سات اورچوبیس گھنٹے ایک دوسرے کے ارد گرد موجود رہنے لگے۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ کسی بھی چیز کا حد سے زیادہ ہونا نقصان دہ ہوتا ہے۔ انسانوں کو ایک ہی ماحول میں بہت زیادہ وقت تک ایک ہی کام کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا۔

دنیا نے کئی غمگین واقعات کی ایک دکھ بھری کہانی دیکھی ہے۔ خود کووڈ ایک دہشت تھا۔ غزہ میں جنگ، مالی بحران اور اب لاس اینجلس میں پالیسیڈز کی آگ۔ فضا میں عمومی بے اطمینانی ہے۔ دولت مند لوگ اپنی زندگی میں ایک ادھورا پن محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ مزید پیسے کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔

غیر دولت مند لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی صرف جدوجہد اور افسردگی کا سلسلہ ہے۔ ایسے غمگین اوقات میں، کیا کیا جا سکتا ہے تاکہ یہ محسوس ہو کہ آپ کی زندگی محض معمولی چیزوں کے پیچھے دوڑنے سے کہیں زیادہ اہم ہے؟

زندگی سے خوشی حاصل کرنے میں ناکامی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ ہر چیز کے لیے ایک بڑی دوڑ لگی ہوئی ہے، اور یہ جنون لوگوں کو تھکا دیتا ہے۔ حتیٰ کہ جب وہ اپنے اہداف تک پہنچتے ہیں تو وہ ایک اینٹی کلائمیکس بن جاتا ہے کیونکہ جو سکون یا خوشی وہ حاصل کرتے ہیں، وہ ایک خلا میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ ہو سکتی ہے:

1- لذت بمقابلہ خوشی — خوشی کی تلاش کو لذت کی خواہش کے ساتھ الجھا دیا گیا ہے۔ جب لوگ وہ لذت حاصل کرتے ہیں تو وہ ایک مختصر مدت کے لیے بلند محسوس کرتے ہیں، مگر تھوڑی ہی دیر میں وہ پھر سے اس سے بھی نیچے چلے جاتے ہیں۔

یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ لذت عارضی اور مادی نوعیت کی ہوتی ہے، جبکہ حقیقی خوشی ایک دیرپا اور گہری سکون کی حالت ہے جو اندرونی سکون اور مقصد کی تلاش سے حاصل ہوتی ہے۔

جو لذت ہم چاکلیٹ کھانے، برانڈز پہننے وغیرہ سے حاصل کرتے ہیں، اسے ”ریٹیل تھراپی“ کہا جاتا ہے جو ان لوگوں کے لیے ہوتی ہے جو اداس محسوس کرتے ہیں۔ خیال یہ ہوتا ہے کہ زیادہ کھانا، زیادہ خریداری کرنا اور اپنے موڈ کو بہتر بنانا۔ لیکن موڈ اور روح کے حالات میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ موڈ عارضی ہوتے ہیں، جبکہ روح کا سکون زیادہ دیرپا ہوتا ہے۔

نفسیات دان کہتے ہیں کہ لذت کی تلاش سے ڈوپامین پیدا ہوتا ہے جو ایک خوشی کا احساس دیتا ہے۔ یہ خوشی کبھی کبھار منفی بھی ہو سکتی ہے۔

جو بھی جذباتی یا جسمانی خوشی ہم محسوس کرتے ہیں، وہ مختلف عوامل پر منحصر ہوتی ہے، جیسے لڑائی، بدسلوکی اور تشدد میں بھی ڈوپامین پیدا ہوتا ہے، جو خوشی کے احساس کا باعث بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لذت دو رخا ہوتی ہے اور اگرچہ یہ تھوڑی دیر کے لیے حوصلہ افزائی دے سکتی ہے، مگر اس کے بعد جو نتیجہ آتا ہے وہ آپ کو مزید ناخوش کر دیتا ہے۔

خوشی دراصل ایک محفوظ اور پرامن ماحول کی تلاش ہوتی ہے۔ خوشی وہ حالت ہے جو آپ کے اندر ہوتی ہے، جب آپ اپنے سے آگے کچھ کرتے ہیں اور آپ کی روح کو سکون ملتا ہے۔ جبکہ لذت عموماً بیرونی عوامل پر مبنی ہوتی ہے۔ خوشی ایک بامقصد زندگی گزارنے کی حالت ہے، جو اندر سے آتی ہے۔

2- انسان ہونے کے 4 پہلو — کہتے ہیں کہ انسان لامحدود خواہشات رکھنے والا ہوتا ہے۔ وہ مزید اور مزید چاہتا ہے۔ ان کی انتھائی خواہشات انہیں غیر ضروری دولت، مادی چیزوں اور کامیابیوں کی جستجو میں لگا دیتی ہیں۔ انسان ہونے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ چار عناصر جو انسان کو انسان بناتے ہیں، ہر ایک کو الگ الگ اطمینان کی ضرورت ہوتی ہے۔

جسم کو اچھا نظر آنا اور محسوس ہونا ضروری ہے۔ دماغ کو پرورش اور چیلنج کی ضرورت ہوتی ہے۔ دل کو گرمجوشی اور چاہت کی ضرورت ہوتی ہے۔ روح کو روحانیت کا احساس چاہیے۔ زندگی میں عدم توازن اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ان میں سے کسی ایک پہلو پر دھیان نہیں دیا جاتا۔ یہ عدم توازن اندرونی تنازع کا باعث بنتا ہے۔

ان چاروں کا پورا ہونا ضروری ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس خوبصورتی اور دولت بہت زیادہ ہے، جسمانی طور پر مطمئن ہو سکتے ہیں لیکن جذباتی طور پر ناخوش ہوتے ہیں۔ لیڈی ڈیانا اس کی بہترین مثال ہیں، جو دنیا کی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی خاتون ہونے کے باوجود تنہا اورچاہت و محبت کی متلاشی محسوس کرتی تھیں۔ یہ صورتحال اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے۔ وسائل کی کمی دوسری طرف ایک انتہائی باصلاحیت شخص کے لیے ترقی کرنا ناممکن بنا دیتی ہے۔

اسی طرح، ایک اچھی تنخواہ والی نوکری جو دماغی چیلنج فراہم نہ کرے، افسردگی کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے ان تمام چاروں پہلوؤں کا توازن ہے جو لوگوں میں حقیقی سکون پیدا کرتا ہے۔ وہ توازن جس میں آپ کے پاس ایک آرام دہ طرز زندگی کے لیے کافی چیزیں ہوں، آپ کے اہم تعلقات محفوظ ہوں، آپ کی دماغی نشونما ہو رہی ہو اور آپ کی صلاحیت ایک بڑے مقصد میں ساتھ دینے کی ہو، یہ ایک نادر موقع ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ کچھ زیادہ کی تلاش جاری رہتی ہے۔

یہ ادراک کہ زندگی صرف مزید کی تلاش سے کہیں زیادہ ہے، اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک زندگی میں کچھ سانحہ نہ ہو جائے۔ پھر یہ پچھتاوے کی زندگی بنتی ہے اور ماضی میں جینا شروع ہو جاتا ہے۔

3- توازن کی بحالی— آگاہ ہونے اور دوبارہ تخلیق کرنے کی صلاحیت انسان ہونے کی ایک خاص خصوصیت ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کسی ایک چیز پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا، چاہے وہ پیسہ ہو، شہرت ہو، خاندان ہو، خود ہو، یا کسی اور شخص پر، سبھی چیزیں اضطراب اور اداسی کا باعث بنتی ہیں۔

جسمانی صحت کے حوالے سے ورزش کے لیے وقت نہ نکالنا سب سے نظرانداز کیے جانے والے پہلو میں شامل ہے۔ یہ منفی طرزعمل عمر بڑھنے پر وزن میں اضافے، صحت کے مسائل کی صورت میں بہت سی مایوسی کا سبب بنے گا۔ اسی طرح، گھر میں اور کام کی جگہ پر کسی دماغی چیلنج کا نہ ہونا ایک اندرونی تنازع پیدا کرے گا جو ہرطرح کی بات چیت یا تعلقات کو متاثر کرے گا۔

اسی طرح روح کو زندگی کا مقصد اور ایک کردار ادا کرنے سے سکون ملتا ہے۔ شاید یہی زندگی کو جاندار بنانے کا بہترین طریقہ ہے۔ بہت کم لوگ اس راستے پر چلتے ہیں۔ لوگ اپنے وجود کا مقصد سمجھنا چاہتے ہیں۔

ان کو افسردہ کرنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ جب وہ یہ نہیں جان پاتے کہ ان کا مقصد حیات کیا ہے؟ اگر آپ مقصد حیات ہونے یا نہ ہونے کے اثرات دیکھنا چاہتے ہیں، تو بس کسی شخص کی زندگی کو اس کی بعد ریٹائرمنٹ سے پہلے اور بعد میں موازنہ کریں، آپ کو ایک نمایاں فرق نظر آئے گا۔ جو لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی نیا مقصد اپناتے ہیں جیسے سوشل سروس میں شمولیت یا کسی نئے پروجیکٹ میں حصہ لینا، وہ ان لوگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ خوش ہوتے ہیں جو صرف گھر پر رہ کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہوتے ہیں۔

توازن کو تلاش کرنا اور اسے برقرار رکھنا زندگی بھر کی جدوجہد ہے۔ جسمانی، مالی یا جذباتی بلندیوں میں اڑنا آسان ہے۔

زندگی کے آسان اور خوشگوار لمحات میں انسان کا اپنی سوچ اور رویوں میں توازن برقرار رکھنا تب ہی ممکن ہے جب وہ اپنے جذبات، کامیابیوں اورحالات سے ذہنی پختگی کے ساتھ نمٹے۔

انسان ہونے کا مطلب ہے دماغ کی سیکھنے کی خواہش، جسم کی تندرستی کی خواہش، دل کی دیکھ بھال کرنے اور دیکھ بال کئے جانے کی خواہش اور روح کی خود سے آگے جانے کی خواہش کو پورا کرنا۔ عدم توازن سے توازن کی طرف کب جانا ہے، یہ جاننا انسانیت کا جوہر ہے۔ جیسا کہ رومی نے کہا، ”زندگی تھام لینے اور چھوڑدینے کا توازن ہے۔“

کاپی رائٹ: بزنس ریکارڈر، 2025

Read Comments