بنگلہ دیش کا بھارت سے سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کی عدالتی کارروائی کیلئے حوالگی کا مطالبہ

23 دسمبر 2024

بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کے قائم مقام سربراہ نے پیر کے روز کہا کہ بنگلہ دیش نے پڑوسی ملک بھارت سے کہا ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو ’عدالتی عمل‘ کے لیے ملک واپس لانا چاہتا ہے۔

جنوبی ایشیا کے دونوں ہمسایہ ممالک، جن کے آپس میں مضبوط تجارتی اور ثقافتی روابط رکھتے ہیں، کے درمیان تعلقات اس وقت سے کشیدہ ہو گئے ہیں جب شیخ حسینہ واجد کو ان کی حکومت کے خلاف پرتشدد مظاہروں کے بعد اقتدار سے بے دخل کیا گیا تھا اور بعد ازاں انہوں نے سرحد پار پناہ لے لی۔

ڈھاکہ کی جانب سے پیر کے روز نئی دہلی سے یہ درخواست ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب 2 ہفتے قبل بھارت کے سیکریٹری خارجہ نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا اور دونوں ممالک نے کہا تھا کہ وہ کشیدہ صورتحال کو معمول پر لانے اور تعمیری تعلقات کو آگے بڑھانے کی امید رکھتے ہیں۔

توحید حسین نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی خط و کتابت کا حوالہ دیتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ ہم نے بھارتی حکومت کو ایک نوٹ بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت چاہتی ہے کہ وہ (حسینہ واجد) عدالتی کارروائی کے لئے یہاں واپس آئیں۔

توحید حسین نے عدالتی عمل کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں۔

بھارت کی وزارت خارجہ اور حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد نے فوری طور پراس حوالے سے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت حسینہ واجد کو واپس بھیج دے تاکہ بنگلہ دیش ان کے خلاف مظاہرین اور ان کے مخالفین کے خلاف جرائم اور گزشتہ 15 برسوں کے دوران ان کے دور حکومت میں کیے جانے والے جرائم کے الزام میں ان پر مقدمہ چلا سکے۔

محمد یونس نئی دہلی سے ان کی انتظامیہ پر تنقید کرنے پر حسینہ واجد سے بھی ناراض رہے ہیں۔

حسینہ واجد کو انسانیت کے خلاف جرائم، نسل کشی اور قتل سمیت متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ وہ ان الزامات سے انکار کرتی ہیں۔

بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے رواں ماہ ڈھاکہ کا دورہ کیا تھا اور ڈھاکہ کے ساتھ تعمیری تعلقات کے لیے بھارت کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔

نئی دہلی نے کہا ہے کہ حسینہ واجد ’حفاظتی وجوہات‘ کی بنا پر مختصر نوٹس پر بھارت آئی تھیں اور اب بھی یہیں موجود ہیں۔

بنگلہ دیش نے حسینہ واجد کے خاندان کے خلاف 5 ارب ڈالر کرپشن کی تحقیقات کا آغاز کر دیا

بنگلہ دیش کے انسداد بدعنوانی کمیشن نے پیر کے روز کہا ہے کہ بنگلہ دیش نے معزول رہنما شیخ حسینہ واجد اور ان کے اہل خانہ کی جانب سے روس کے حمایت یافتہ نیوکلیئر پاور پلانٹ میں مبینہ طور پر 5 ارب ڈالر کی خورد برد کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

اگست میں انقلاب کے بعد اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد بھارت فرار ہونے والی سابق وزیر اعظم حسینہ واجد کے علاوہ ان کے بیٹے سجیب واجد جوئے اور بھتیجی ٹیولپ صدیق بھی شامل ہیں جو ایک برطانوی قانون ساز اور حکومتی وزیر ہیں۔

یہ الزامات حسینہ واجد کے سیاسی مخالف نیشنلسٹ ڈیموکریٹک موومنٹ پارٹی کے چیئرمین بوبی حجاج کی جانب سے ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ایک رٹ کے ذریعےعائد کیے گئے تھے۔

بوبی حجاج نے پیر کے روز اے ایف پی کو بتایا کہ ہم اپنی عدالت کے ذریعے انصاف چاہتے ہیں۔

اہم الزامات 12.65 بلین ڈالر کے روپ پور نیوکلیئر پلانٹ کی فنڈنگ سے متعلق ہیں، جو جنوبی ایشیائی ملک کا پہلا جوہری پلانٹ ہے، جسے ماسکو نے 90 فیصد قرض کے ساتھ مالی اعانت فراہم کی ہے۔

کمیشن کی جانب سے پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نے حسینہ واجد اور ان کے اہل خانہ پر الزامات کی تحقیقات کا آغاز کیا ہے کہ انہوں نے ملائشیا میں مختلف آف شور بینک اکاؤنٹس کے ذریعے روپ پور پلانٹ سے 5 ارب ڈالر کی خرد برد کی ہے۔

اس نے کہا کہ مذکورہ تحقیقات میں جوہری پلانٹ کی “زیادہ قیمت پر تعمیر سے متعلق مشکوک خریداری کے طریقوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

کمیشن نے کہا کہ کک بیکس، بدانتظامی، منی لانڈرنگ اور اختیارات کے ممکنہ غلط استعمال کے دعوے اس منصوبے کی سالمیت اور عوامی فنڈز کے استعمال کے بارے میں اہم خدشات پیدا کرتے ہیں۔بدعنوانی کے الزامات میں بے گھر افراد کے لئے ایک سرکاری عمارت کی اسکیم سے چوری بھی شامل ہے۔

77 سالہ حسینہ واجد 5 اگست کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار ہو کر بھارت میں جلاوطنی اختیار کر گئی تھیں، جس کے بعد بہت سے بنگلہ دیشی شہریوں کو غصہ آیا تھا کہ انہیں مبینہ طور پر ’اجتماعی قتل‘ کے الزام میں مقدمے کا سامنا ہے۔

تبصرہ کے لئے حسینہ سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔

برطانوی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق ٹیولپ صدیق نے اپنے اوپر عائد کردہ غبن میں ملوث ہونے کا الزام مسترد کرتے ہوئے اس طرح کے تمام دعووں میں ملوث ہونے سے انکارکیا ہے۔

سجیب واجد جوئے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ میں مقیم ہیں، سے بھی تبصرے کے لئے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔

Read Comments