کسی بھی والدین کیلئے اولاد کی موت یا جانی نقصان ایک جلتا ہوا زخم ہے جو کبھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ ایسے والدین جن کے گوشہ جگر مذموم دہشتگرد حملے کا شکار بن جاتے ہیں تو ان کا زخم غصے، بے تحاشا غم میں تبدیل ہوجاتا ہے اور جب یہ والدین اپنے بچوں کی یادگار یعنی اسکول بیگ ،کتابیں کپڑے وغیرہ دیکھتے ہیں تو یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
10 سال قبل 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کیے گئے اسکول کے 132 بچوں کے والدین کا یہی حال ہے۔ جب بھی ان کے شہید بچوں کا ذکر آتا ہے تو وہ بے ساختہ روپڑتے ہیں۔
شہید ہونے والوں میں 15 بہادر اساتذہ بھی شامل تھے جنہوں نے اپنے طالب علموں کو ان وحشی اور خون خوار قاتلوں سے بچانے کی کوشش میں خود کو قربان کر دیا تھا۔ کچھ شدید زخمی ہونے کے باوجود زندہ بچ گئے۔ ان تمام بے گناہ جانوں کا کیا قصور تھا؟ انہوں نے ایسا کیا جرم کیا تھا جن کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا تھا؟ صرف یہ سوالات پوچھنا ہی ہر اس دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے بشرط یہ کہ وہ پتھر نہ ہو۔
ملک مجموعی طور پر اس ظلم سے سوگوار تھا۔ اس خونریزی کے 8 دن بعد عام شہریوں اورعسکری قیادت دہشت گردی اور اس کا مقابلہ کرنے کے طریقوں پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے جمع ہوئی۔ یہاں تک کہ عمران خان کو بھی ڈی چوک پر اپنے کئی ماہ سے جاری دھرنے کو ختم کرنے اور قومی مباحثوں میں شامل ہونے پر مجبور ہونا پڑا ( لیکن بعد کے برسوں میں ہچکچاہٹ دیکھنے میں آئی)۔
لہٰذا اس بات نے ذہن کو الجھائے رکھا ہے کہ عمران خان کو یہ جرات کیسے ہوئی کہ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد جلا وطن ٹی ٹی پی کو افغانستان سے واپس پاکستان آنے کی دعوت دی اور بدلے میں ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا کیوں کہ واضح ہے کہ ٹی ٹی پی نے ہتھیاروں کا استعمال دہشتگردی کیلئے کیا۔ لیکن اس غیر معمولی بات پر غور کرنے سے پہلے، ہمیں اپنی سوچ کو واپس لے جانا ہوگا اور فوجی آپریشن ضرب عضب کی طرف، جو جون 2014 میں خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔
آپریشن کی حکمت عملی انتہائی ناقص تھی جس میں خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں، خاص طور پر تیرہ وادی میں ٹی ٹی پی اور دیگر مذہبی بنیاد پرست دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تو نشانہ بنایا گیا مگر دہشتگردوں کے افغانستان فرار ہونے سے متعلق راستے بند کرنے جیسا اہم کام نظر انداز کردیا گیا۔
آپریشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب ٹی ٹی پی فوج کی شدید بمباری برداشت نہ کرسکی تو وہ سرحد پار کرکے افغانستان فرار ہوگئی اور امریکی اور مغربی افواج کیخلاف جنگ لڑنے والے ملک کے ایسے کمزور علاقوں میں پناہ گاہیں تلاش کرنے لگی جہاں سیکورٹی کمزور تھی۔ فرار کے وقت ٹی ٹی پی نے جنگ دوبارہ شروع ہونے سے متعلق حکمت عملی کے طور پر سلیپر سیلز بھی چھوڑے۔
اس وقت میرے تصور کا خلاصہ کچھ یوں تھا،جسے میں نے لکھا تھا اور وہ اس طرح تھا کہ فوج نے مسئلہ بیرون ملک منتقل کردیا ہے یعنی ملک سے مسئلہ نکال دیا تاہم سانپ کو نہیں مارا۔ اس بات کا مطلب حالات تبدیل ہونے پر پاکستان میں دہشتگردی کے پھر سے سر اٹھانے کا خطرہ موجود تھا۔
اور حالات واقعی تبدیل ہوئے خاص طور پر 2021 میں افغان طالبان کی فتح کے بعد صورتحال بدل گئی اور آج بھی تیزی کے ساتھ مزید تبدیل ہورہی ہے، ٹی ٹی پی نے دہشتگردی کی مہم پھر سے شروع کردی ہے اور اس کے روزانہ ہونے والے حملوں میں جانی و مالی نقصانات ہورہے ہیں۔ 2014 میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے متفقہ نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کے حصے کے طور پر ایک اور مایوس کن کوشش نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کا قیام تھا جس کا مقصد سویلین اور ملٹری اداروں میں انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے اور تعاون کو مربوط کرنا تھا۔
تاہم، جیسا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارروائیوں سے دور دور تک واقف کوئی بھی شخص بتا سکتا ہے، نیکٹا لازمی طور پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے اپنی معلومات کو ساتھی فوجی یا سویلین ایجنسیوں کے ساتھ شیئر کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہا ہوگا۔ یہ بھی ہو چکا ہے اور کئی برسوں تک اندھیروں میں بھٹکنے کے بعد نیکٹا بے اثر ہوچکا ہے۔
آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کے شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ہمیں ایک قوم کے طور پر دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں یکجا ہونا ہوگا۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب انٹیلی جنس ایجنسیاں دہشت گردی کے خطرے کو ختم کرنے کی کوشش میں شہریوں کو کردار ادا کرنے کیلئے متحرک کریں، یہ دہشتگردی افغانستان میں شدت پسندوں کی حمایت کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں شروع ہوئی جو بعد میں طالبان کے خطرناک روپ میں ہمارے لیے ہی وبال جان بن گئی۔
جنرل ضیاءالحق کا مذہبی جنون کسی اچھائی کا باعث نہیں بن سکا۔ اس نے مذہبی انتہا پسندی کی ایک ایسی میراث چھوڑی ہے جو ابھی تک ہمارے معاشرے اور سیاست کے بڑے حصوں کو جکڑے ہوئے ہے اور اس کا افغان روپ اب ہمیں دوبارہ پریشان کر رہا ہے۔ انٹیلی جنس سروسز کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے، اعلیٰ ترین فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس دہشتگردی کا خاتمہ خال خال ہی نظر آتا ہے۔
بہرحال حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کی لعنت کے خلاف عوام اور ریاستی اداروں کو جامع انداز میں متحرک کیے بغیر پاکستان کو اے پی ایس قتل عام اور اس کے بعد کے طویل نتائج کا سامنا ہے۔