ترکیہ نے شام میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھولنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ یہ پیشرفت ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب ایک ہفتہ قبل شامی صدر بشار الاسد کو انقرہ کی حمایت یافتہ قوتوں نے معزول کرتے ہوئے اقتدار پر کنٹرول حاصل کیا۔ شام میں 12 سال قبل شروع ہونے والی جنگ کے ابتدائی ایام میں ترکیہ نے اپنا سفارتخانہ بند کردیا تھا۔
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرق وسطیٰ اور مغربی ممالک کے سفارت کار شام کے معاملے پر اعلیٰ سطحی مذاکرات کے لیے اردن میں جمع ہوئے ہیں۔
انقرہ شام کے تنازع میں ایک اہم کردار ادا کر چکا ہے، شمال مغربی شام میں اپنی مضبوط موجودگی برقرار رکھتے ہوئے وہاں مسلح گروپوں کی مالی معاونت فراہم کرتا ہے اور اس نے حیات تحرریر الشام کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں جس نے بشار حکومت کے خاتمے کے لیے آپریشن کی قیادت کی۔
ترک وزیر خارجہ ہاکان فدان نے کہا ہے کہ نئے ناظم الامور برہان کورگلو جمعے کے روز شام روانہ ہو گئے ہیں اور توقع ہے کہ سفارت خانہ آئندہ روز ”فعال“ ہو جائے گا۔
فدان نے یہ بھی کہا کہ انقرہ نے اسد کے حامیوں روس اور ایران پر زور دیا تھا کہ وہ باغیوں کی جانب سے پیشقدمی کے دوران مداخلت سے گریز کریں۔
فدان نے ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے اہم بات روسیوں اور ایرانیوں سے بات کرنا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ معاملے میں عسکری طور پرمداخلت نہ کریں اور وہ یہ بات سمجھ گئے۔
ترکیہ کے سفارت کاروں نے ہفتے کے روز اردن کے شہر عقبہ میں یورپی یونین، امریکہ اور عرب دنیا کے ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔
شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی گیئر پیڈرسن نے شرکا پر زور دیا کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ’ریاستی ادارے تباہ نہ ہوں‘۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایسا کرلیتے ہیں تو یہ شاید شامی عوام کے لیے ایک نیا موقع ہو۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی شام کے دورے کے دوران عقبہ اجلاس میں شرکت کی۔
دریں اثناء قطر کے ایک سفارت کار نے کہا ہے کہ خلیجی امارات کا ایک وفد اتوار کو شام کا دورہ کرے گا جہاں وہ عبوری حکومت کے حکام سے ملاقات کرے گا۔
دیگر عرب ممالک کے برعکس قطر نے 2011 میں کشیدگی کے بعد اسد کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال نہیں کیے۔
بشارالاسد شام سے فرار ہو گئے ہیں جس سے ایک ایسا باب بند ہو گیا ہے جس کے دوران شام میں مخالفین کو جیلوں میں قید کیا گیا یا پھر ہلاک کردیا گیا۔ اس سے شام میں جاری 14 سال کی جنگ کی ختم ہوچکی ہے جس میں 500،000 سے زیادہ افراد مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔
’خوشی کے آنسو‘
اردن میں ہونے والی ملاقاتوں سے ایک روز قبل شامیوں نے ’فتح کا جمعہ‘ منایا اور آتش بازی کے ذریعے اسد خاندان کے اقتدار کے خاتمے کا اعلان کیا۔
بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد آنے والے پہلے جمعے کو تقریبات رات بھر جاری رہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی ٹی وی کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دمشق کا اموی اسکوائر گاڑیوں، لوگوں اور جھنڈوں سے بھرا ہوا تھا۔
حمص، حما اور ادلب سمیت شام کے دیگر شہروں کے چوراہوں اور گلیوں میں بھی بھیڑ جمع ہوئی۔
ترکیہ سے حلب لوٹنے والے 39 سالہ انجینئر احمد عبدالمجید نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے خوشی کے آنسو بہائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شامی خوش رہنے کے مستحق ہیں۔
جنوبی شہر سویدا میں 77 سالہ بیان الحنوی نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ایسا دن دیکھنے کے لیے زندہ رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک حیرت انگیز منظر ہے، کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ الحنوی نے 17 سال جیل میں گزارے۔
سنی مسلم ایچ ٹی ایس کی جڑیں شام میں القاعدہ کی شاخ سے وابستہ ہیں اور بہت سی مغربی حکومتوں نے اسے ”دہشت گرد“ تنظیم قرار دیا ہے۔
لیکن گروپ نے اپنے بیانات کو اعتدال پر لانے کی کوشش کی ہے اور عبوری حکومت کا اصرار ہے کہ قانون کی حکمرانی کی طرح تمام شامیوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔
یورپی یونین کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ یورپی یونین نئے حکمرانوں کے ساتھ ”رابطے قائم کرنے“ کی کوشش کر رہی ہے۔
شام کے زیادہ تر حصوں میں توجہ بشار انتظامیہ کے رازوں، خاص طور پر حراستی مراکز اور مشتبہ تشدد کے مقامات کے نیٹ ورک سے پردہ اٹھانے پر مرکوز تھی۔
بین الاقوامی کمیٹی برائے ریڈ کراس نے کہا کہ اس نے اسد کے دور حکومت میں 35,000 سے زیادہ افراد کی گمشدگی کی دستاویزات تیار کیں، جبکہ حقیقت میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
ابو محمد نے دمشق کے مززہ ایئر بیس پر اپنے تین لاپتہ رشتہ داروں کی تلاش کے دوران اے ایف پی کو بتایا کہ ہم صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں۔
ایک طرف جہاں شامی عوام بشار الاسد کی ظالمانہ حکمرانی کے خاتمے کا جشن منا رہے ہیں، وہیں انہیں جنگ، پابندیوں اور بڑھتی ہوئی افراط زر سے تباہ حال ملک میں ضروریات کے حصول کے لیے جدوجہد کا سامنا ہے۔
جمعے کے روز یورپی یونین نے ہمسایہ ملک ترکی کے ذریعے ابتدائی طور پر 50 ٹن طبی سامان کی فراہمی کے لیے ’ایئر برج‘ آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اسرائیل کے حملے
اسد کی حکومت کو روس کی حمایت حاصل تھی جس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے امریکی میڈیا کو بشار کے فرار ہونے کی اطلاع دی تھی جبکہ ایران اور لبنان کی حزب اللہ گروپ نے بھی بشار انتظامیہ کی حمایت کی تھی۔
باغیوں نے 27 نومبر کو اپنے حملے کا آغاز کیا، اسی دن لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کی جنگ بندی عمل میں آئی جس میں بشار کی اتحادی تنظیم کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اسرائیل اور ترکی دونوں نے شام کے اندر حملے کیے ہیں۔
شام کی جنگ پر نظر رکھنے والے ایک ادارے کا کہنا ہے کہ شمالی دمشق کے علاقے بارزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں ایک سائنسی ادارہ اور دیگر متعلقہ فوجی تنصیبات تباہ ہو گئیں اور دارالحکومت کے دیہی علاقوں میں ایک ’فوجی ہوائی اڈے‘ کو نشانہ بنایا گیا۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے مزید کہا کہ حملوں میں کلامون کے علاقے میں بھی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔
آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ بمباری کے کئی دور میں سابق حکومتی افواج کے عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جس کا مقصد “مستقبل کی شام کی فوج کی صلاحیتوں کو مکمل طور پر تباہ کرنا ہے۔
اسرائیل نے گولان ہائٹس پر اسرائیلی اور شامی فورسز کے درمیان اقوام متحدہ کے قائم کردہ بفر زون میں فوجی بھیجے ہیں جسے اقوام متحدہ نے 1974 کی جنگ بندی کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اسرائیل کے وزیر دفاع کاٹز کے دفتر نے جمعے کے روز بتایا کہ فوج کو موسم سرما کے دوران وہاں رہنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔