سپریم کورٹ میں میگا قرضوں کی معافی کا کیس سماعت کیلئے مقرر

01 دسمبر 2024

سپریم کورٹ کا آئینی بینچ 1971 سے 2009 تک کے اربوں روپے کے قرضوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت منگل (3 دسمبر) کو کرے گا۔ اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 30 جولائی 2018 کو ان بینکوں کے صدور اور سی ای اوز کو نوٹس ز جاری کیے تھے جنہوں نے قرضے معاف کیے ہیں اور بتایا تھا کہ قرض لینے والوں پر کتنی رقم واجب الادا ہے۔

8 جنوری 2019 کو بنچ کو بتایا گیا کہ 222 قرض دہندگان میں سے صرف 39 افراد / کمپنیاں / تنظیم آپشن 1 سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔ اس لئے بنچ نے باقی قرض دہندگان کے معاملوں کی جانچ کے لئے ایک خصوصی بنچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ عدالت نے قرض نادہندگان کو دو آپشنز دیئے۔ سب سے پہلے اس عدالت میں ”منظور شدہ رقم“ اور ”وصول شدہ رقم“ کے درمیان فرق کے 75 فیصد کے برابر رقم جمع کرائی جائے۔ اگر وہ پہلے آپشن کا فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں تو ان کے مقدمات بینکنگ کورٹ کو بھیجے جائیں گے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) سید جمشید علی کی سربراہی میں 1971 کے بعد سے معاف کیے گئے قرضوں کی وصولی اور رپورٹ مرتب کرنے کے لیے جون 2011 میں تشکیل دیے گئے تین رکنی انکوائری کمیشن نے فروری 2013 میں اپنی رپورٹ پیش کی جس کے مطابق 1971 سے 2009 کے درمیان 38 سال میں 87 ارب روپے معاف کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق حبیب بینک لمیٹڈ نے 94، نیشنل بینک آف پاکستان نے 65، انڈسٹریل ڈیولپمنٹ بینک آف پاکستان نے 15، این آئی بی نے 5، زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ نے 25، یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ نے 3، پاک لیبیا نے 5، ایس ایم ای 7 اور بینک آف خیبر نے 3 کیسز میں قرضے معاف کیے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1971 سے 1991 کے درمیان 2 ارب 38 کروڑ روپے کے قرضے معاف کیے گئے جبکہ 1992 سے 2009 کے درمیان 84 ارب 62 کروڑ روپے کے قرضے معاف کیے گئے۔ رپورٹ میں نہ صرف قرض معاف کرانے والوں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے بلکہ بینکروں اور ان افسروں کے خلاف بھی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے جنہوں نے قرض معاف کرانے میں مدد کی۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments