اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزین نے اتوار کو بتایا ہے کہ انڈونیشیا کے ساحل کے قریب کشتی ڈوبنے کے بعد خواتین اور بچوں سمیت 100 سے زائد روہنگیا پناہ گزینوں کو بچالیا گیا ہے۔
میانمار میں شدید مظالم کے شکار روہنگیا مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد ہر سال اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر طویل اور خطرناک سمندری سفر کے ذریعے ملائیشیا یا پھر انڈونیشیا پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے عہدیدار فیصل رحمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہمیں مشرقی آچے کی حکومت کی جانب سے ایک رپورٹ موصول ہوئی ہے کہ وہاں مجموعی طور پر 116 پناہ گزین موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پناہ گزین ابھی بھی ساحلی علاقے میں میں ہیں اور اب تک ان کی منتقلی کے حوالے سے فیصلہ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کو لے جانے والی ایک کشتی شمال مشرقی سماٹرا جزیرے کے ساحل سے کچھ ہی فاصلے پر آدھی ڈوبی ہوئی پائی گئی۔
ایک مقامی ماہی گیر سیف الدین طاہر نے بتایا کہ کشتی کو سب سے پہلے ہفتے کی صبح مشرقی آچے کے پانیوں میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا تھا اور کچھ گھنٹوں بعد وہ تقریبا ڈوب گئی۔
سیف الدین نے بتایا کہ تمام پناہ گزینوں کو بچالیا گیا لیکن ان میں سے ایک بیمار تھا جس کا فوری طور پر علاج کیا گیا، انہوں نے بتایا کہ کشتی ساحل سمندر سے صرف 100 میٹر کی دوری پر تھی اور پناہ گزین آسانی سے پیدل چل کر محفوظ مقام تک پہنچ سکتے تھے۔
انڈونیشیا میں آنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی آمد کا رحجان ایک گردشی انداز اختیار کرتا ہے، طوفان کے مہینوں کے دوران اس رحجان میں کمی آتی ہے اور سمندر کے پرسکون ہونے پر یہ پھر تیز ہوجاتا ہے۔
گزشتہ ماہ 152 روہنگیا پناہ گزینوں کو جنوبی آچے ضلع کے ساحل پر کئی روز تک لنگر انداز رہنے کے بعد زمین پر اترنے کی اجازت دی گئی، اس دوران حکام انہیں یہ فیصلہ کررہے تھے کہ انہیں آنے کی اجازت دی جائے یا نہیں۔
انڈونیشیا نے اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن پر دستخط نہیں کیے ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ اسے میانمار سے پناہ گزینوں کو لینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، اس کے بجائے ہمسایہ ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس بوجھ میں شریک ہوں اور اپنے ساحلوں پر آنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی آباد کاری میں مدد کریں۔
آچے کے بہت سے باشندوں کو، جو خود کئی دہائیوں کے خونریز تنازعے کی یادیں رکھتے ہیں، اپنے ہم مذہب روہنگیا پناہ گزینوں کی حالت زار پر ہمدردی ہے۔لیکن کئی مقامی باشندوں کا کہناہے کہ ان کے صبر کا امتحان لیا گیا ہےاور ان کا دعویٰ ہے روہنگیا پناہ گزین قیمتی وسائل کا استعمال کرتے ہیں اور کبھی کبھار مقامی افراد کے ساتھ تصادم میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔
دسمبر 2023 میں آچے کے ایک کمیونٹی ہال میں سینکڑوں طلباء نے 100 سے زائد روہنگیا پناہ گزینوں کی پناہ گاہ پر دھاوا بول کر ان کی چیزوں کو نقصان پہنچایا انہیں وہاں سے منتقل ہونے پر مجبور کیا تھا۔