پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب نے اسموگ سے متاثرہ بڑے شہروں میں عوامی مقامات کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مقامی حکومت کی ہدایت کے مطابق ہوا کے خراب معیار کی وجہ سے پارکوں، چڑیا گھروں، کھیل کے میدانوں، تاریخی یادگاروں، عجائب گھروں اور تفریحی مقامات تک رسائی پر 17 نومبر تک پابندی ہوگی۔
لاہور کی فضا میں باریک ذرات (پی ایم 2.5) کا ارتکاز عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے قابل قبول سطح سے 20 گنا زیادہ تھا۔
ملتان میں جمعہ کے روز یہ 48 گنا زیادہ تھا۔
آئی کیو ایئر کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے باشندے ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے شدید اسموگ میں رہ رہے ہیں کیونکہ ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) 1000 سے اوپر چلا گیا ہے جو 300 کی سطح سے کہیں زیادہ ہے۔
پنجاب کے کچھ بڑے شہروں میں اسکولوں کو منگل کو 17 نومبر تک بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
صوبے نے بدھ کے روز اسموگ، دھند اور کم درجے کے ڈیزل کے دھوئیں، فصل جلنے سے نکلنے والا دھواں اور موسم سرما کی ٹھنڈک سے پیدا ہونے والی آلودگی سے متاثرہ مزید کئی شہروں میں اس حکم نامے میں توسیع کردی۔
یہ فیصلہ گزشتہ ماہ لاہور میں چار ’ہاٹ اسپاٹس‘ پر عائد پابندیوں کے بعد کیا گیا تھا جس میں ٹو اسٹروک انجنوں کے ساتھ ٹوک ٹاکس اور فلٹرز کے بغیر باربی کیو چلانے والے ریستورانوں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
لاہور کے مضافات میں کاشتکاروں کی جانب سے موسمی فصلوں کو جلانے سے بھی زہریلی ہوا پیدا ہوتی ہے جس کے بارے میں ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ یہ فالج، دل کی بیماری، پھیپھڑوں کے کینسر اور سانس کی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف شکاگو کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، اضافی آلودگی لاہور کے رہائشیوں کی متوقع عمر کو اوسطا 7.5 سال تک کم کرتی ہے۔
یونیسیف کے مطابق، جنوبی ایشیا میں تقریبا 600 ملین بچے فضائی آلودگی کی اعلی سطح کا سامنا کرتے ہیں، جو بچپن میں نمونیا سے ہونے والی نصف اموات سے بھی منسلک ہے.