پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں ریکارڈ آلودگی کی وجہ سے پرائمری اسکول ایک ہفتے کے لیے بند کر دیے جائیں گے۔ حکام نے اتوار کو بتایا ہے کہ اس اقدام کا مقصد لاکھوں بچوں کو خطرناک سمجھی جانے والی سطح سے کئی گنا زیادہ اسموگ کا شکار ہونے سے بچانا ہے۔
ایک کروڑ 40 لاکھ کی آبادی پر مشتمل شہر لاہور کئی دنوں سے اسموگ میں گھرا ہوا ہے جو کہ کم درجے کے ڈیزل اور فصلوں کی باقیات جلانے سے پیدا ہونے والے دھویں اور سرد ہواؤں کی وجہ سے دھند اور آلودگی کا مرکب ہے۔
آلودگی کی سطح کی پیمائش کرنے والے اشاریے ایئر کوالٹی انڈیکس (آئی کیو ایئر) کے اعداد و شمار کے مطابق ہفتے کے روز لاہور کا اے کیو آئی 1،000 سے تجاوز کر گیا ، جو ”خطرناک“ تصور کیے جانے والی 300 کی سطح سے کہیں زیادہ ہے۔
پنجاب حکومت نے بھی اتوار کے روز ایک ہزار سے زائد کی بلند ترین سطح ریکارڈ کی، جسے اس نے ”غیر معمولی“ قرار دیا۔ لاہور میں ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کے ایک سینئر عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایاکہ اگلے چھ دنوں کے لئے موسم کی پیش گوئی سے پتہ چلتا ہے کہ ہوا کا پیٹرن وہی رہے گا، اس لیے ہم لاہور کے تمام سرکاری اور نجی پرائمری اسکولوں کو ایک ہفتے کے لیے بند کر رہے ہیں۔ حکومتی فصلے کے مطابق 10 سال کی عمر تک کے بچوں کے لئے تمام سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی ادارے ایک ہفتے کیلئے بند رہیں گے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اگلے ہفتے کو صورتحال کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ آیا اسکولوں کی بندش میں توسیع کی جائے یا نہیں۔ پنجاب کے سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے اتوار کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ اسموگ بچوں کے لیے بہت نقصان دہ ہے، اسکولوں میں ماسک پہننا لازمی قرار دیا جائے، ہم سیکنڈری کے طالبعلوں کی صحت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسپتالوں میں اسموگ کاؤنٹر قائم کیے گئے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کا کہناہے کہ آلودہ ہوا میں سانس لینے سے صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں اور فالج، دل کی بیماریاں، پھیپھڑوں کے کینسر اور سانس کی بیماریاں طویل عرصے تک رہ سکتی ہیں۔ بچوں کو خطرات لاحق بتایا گیا ہے کہ ہفتے کو آلودگی کے حوالے سے انتہائی خطرناک ذرات کی سطح پی ایم 2.5 کے معیار کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے طے شدہ معیار سے 40 گنا زیادہ تھی۔ اتوار کو پی ایم 2.5 کی سطح اتوار کو بڑھ گئی تھی جو بعد ازاں کم ہوئی۔ گزشتہ ہفتے صوبائی ماحولیاتی تحفظ کے ادارے نے شہر کے چار ’ہاٹ اسپاٹس‘ میں نئی پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔ آلودگی کا سبب بننے والے 2 اسٹروک انجن کے حامل رکشوں اور فلٹر کے بغیر بار بی کیو بنانے پر بھی پابندی ہوگی۔ حکومتی دفاتر اور نجی کمپنیوں کے نصف عملے کو پیر سے گھر سے کام کرنے کا کہا جائے گا۔ بچے خاص طور پر کمزور ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پھیپھڑوں کی نشوونما کم ہوتی ہے اور وہ زیادہ تیزی سے سانس لیتے ہیں جس کی وجہ سے بالغ افراد کے مقابلے میں ان کا نظام تنفس زیادہ ہوا لیتا ہے۔ گزشتہ ماہ، حکام نے اسکول کے بچوں کو جنوری تک باہر ورزش کرنے پر پابندی لگا دی اور آلودگی کے زیادہ ہونے کے اوقات میں بچوں کے سفر سے بچنے کے لیے اسکول کے اوقات میں تبدیلی کی۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے محفوظ سمجھی جانے والی سطح سے زیادہ آلودگی لاہور کے رہائشیوں کی زندگی کو اوسطاً 7.5 سال کم کرتی ہے، جیسا کہ شکاگو کی یونیورسٹی کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطالعے میں سامنے آیا ہے۔ یونیسیف کے مطابق، جنوبی ایشیا میں تقریباً 600 ملین بچے زیادہ آلودگی کی سطح کا شکار ہیں اور بچوں میں نمونیا سے ہونے والی نصف اموات ہوا کی آلودگی سے منسلک ہیں۔ ’اسموگ کے خلاف پاکستان اور بھارت کو متحد ہونا چاہیے‘ لاہور میں دیوالی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کو سرحد کے دونوں جانب اسموگ کے بگڑتے ہوئے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں لاہور میں اسموگ کے معاملے پر بھارت کے ساتھ موسمیاتی سفارتکاری کی ضرورت ہے۔ میں اس سلسلے میں بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو خط لکھنے کے بارے میں سوچ رہی ہوں کیونکہ یہ سیاسی نہیں بلکہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ اگر ہم بھی اس حوالے سے اقدامات کر رہے ہیں تو بھارت کی جانب سے بھی اسی طرح کا جواب دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس سفارتکاری سے سرحد کے دونوں اطراف کے عوام اور ماحول مستفید ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک دونوں پنجاب مل کر کام نہیں کریں گے ہم اسموگ کے مسئلے سے نہیں نمٹ سکیں گے۔