اسپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے کہا ہے کہ وہ اسپین کی تاریخ کے بدترین سیلاب سے تباہ ہونے والے مشرقی ویلنسیا کے علاقے میں مزید 10 ہزار فوجی اور پولیس اہلکار تعینات کریں گے۔ اسپین میں سیلاب سے 211 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
سیلابی ریلوں کے باعث علاقے زیر آب آنے اور انفرا اسٹرکچر کے تباہ ہونے 3 روز بعد لاپتہ افراد کے زندہ بچ جانے کے امیدیں معدوم ہوچکی ہیں کیوں کہ یورپی ملک میں اس طرح کی تباہی گزشتہ دہائیوں کی دوران نہیں ہوئی ہے۔
تقریبا تمام ہلاکتیں مشرقی ویلنسیا کے علاقے میں ریکارڈ کی گئی ہیں جہاں سیکیورٹی اور ہنگامی خدمات کے ہزاروں اہلکار لاشوں کی تلاش میں ملبے اور کیچڑ کو صاف کر رہے ہیں۔
سانچیز نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا کہ یہ آفت اس صدی میں یورپ میں آنے والا دوسرا مہلک ترین سیلاب ہے اور انہوں نے امدادی کاموں کے لیے سکیورٹی فورسز کی تعداد میں زبردست اضافے کا اعلان کیا۔
سانچیز نے کہا کہ حکومت نے ویلنسیا ریجن کے رہنما کی مزید 5 000 فوجی تعینات کرنے کی درخواست قبول کرلی ہے اور پولیس افسران اور سول گارڈز کی تعیناتی سے آگاہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسپین امن کے دور میں فوج اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی سب سے بڑی تعیناتی کر رہا ہے۔
مزید ہلاکتوں کا خدشہ
نظم و نسق کی بحالی اور تباہ شدہ قصبوں اور دیہاتوں میں امداد کی تقسیم – جہاں کچھ علاقوں میں کئی دنوں سے خوراک، پانی اور بجلی کی فراہمی منقطع ہے – ایک ترجیح ہے۔
حکام سیلاب سے قبل وارننگ سسٹم کی مناسبت پر تنقید کی زد میں ہیں اور کچھ متاثرہ رہائشیوں نے شکایت کی ہے کہ اس آفت سے نمٹنے کی سرگرمیاں بہت سست ہیں۔
سانچیز نے کہا مجھے معلوم ہے کہ امدادی سرگرمیاں کافی نہیں ہے، مسائل اور بنیادی اشیا کی شدید قلت ہے، سانچیز نے کہا کہ کیچڑ میں دبے ہوئے قصبوں میں مایوس لوگ اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں ہیں۔
ویلنسیا ریجن کی نائب سربراہ سوزانا کیمرو نے ہفتے کے روز صحافیوں کو بتایا کہ تمام قابل رسائی بستیوں میں ’پہلے دن سے‘ ضروری سامان پہنچا دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ متاثرہ رہائشی افراد کی جانب سے مزید امداد کا مطالبہ منطقی بات ہے۔
والیسیہ کے حکام نے دو روز تک سڑکوں پر عام ٹریفک کی رسائی محدود کر دی ہے تاکہ ایمرجنسی سروسز کو تلاش، بچاؤ اور لوجسٹکس کی سرگرمیاں زیادہ مؤثر طریقے سے انجام دینے میں مدد دی جاسکے۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ درجنوں لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں۔
لیکن ٹیلیفون اور ٹرانسپورٹ کے نیٹ ورکس کو شدید نقصان پہنچنے کی وجہ سے درست تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے۔
وزیر داخلہ فرنینڈو گرینڈے-مارلاسکا نے جمعہ کو کیڈینا سر ریڈیو اسٹیشن کو بتایا کہ یہ ”معقول“ بات ہے کہ مزید ہلاکتیں سامنے آئیں گی۔
یہ بھی امید کی جا رہی ہے کہ جب ٹیلیفون اور انٹرنیٹ خدمات دوبارہ فعال ہوں گی تو لاپتہ لوگوں کی تخمینی تعداد میں کمی آئے گی۔
حکام نے اس آفت کے دوران عوامی ہم آہنگی کے جذبات کی بھی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ان کے لیے بہترین ثابت ہورہا ہے۔
ہزاروں عام شہریوں نے جمعہ کو ٹرالیاں دھکیلتے اور صفائی کا سامان اٹھائے سڑکوں پر نکل کر صفائی کی کوششوں میں مدد کی۔کیمرو نے کہا کہ کچھ بلدیات ہم آہنگی اور خوراک کی ملنے والی مقدار سے بہت زیادہ خوش ہوئی ہیں۔
مل جلکر کام کرنے کا جذبہ ہفتے کو بھی جاری رہا۔ اے ایف پی کے ایک صحافی نے دیکھا کہ بحیرہ روم کے ساحلی شہر ویلنسیا سے تقریبا ایک ہزار افراد سیلاب کی وجہ سے تباہ ہونے والے قریبی قصبوں کی طرف روانہ ہوئے۔
حکام نے انہیں گھر رہنے کی تلقین کی ہے تاکہ سڑکوں پر ہجوم سے بچا جا سکے جو ایمرجنسی سروسز کے کام خلل کا باعث بن سکتا ہے۔
وہ طوفان جو منگل کو سیلاب کا باعث بنا، سرد ہوا کے گرم میڈیٹرینین پانیوں کے اوپر حرکت کرنے سے تشکیل پایا اور اس وقت کے لیے عام بات ہے۔
لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسانی سرگرمی کی وجہ سے پیدا ہونے والا ماحولیاتی تبدیلی کا اثر ایسے شدید موسمی واقعات کی شدت، دورانیہ اور تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔