بلوچستان کے ضلع مستونگ میں دھماکے کے نتیجے میں 5 اسکول کے بچوں اور ایک پولیس اہلکار سمیت 7 افراد جاں بحق جبکہ 23 زخمی ہوگئے۔
رپورٹ کے مطابق دھماکہ پولیس وین کے قریب ایک چوک پر ہوا جو کہ سول اسپتال اور ایک لڑکیوں کے اسکول کے قریب واقع تھا۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس رحمت اللہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہدف ایک پولیس وین تھی جو پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم کو لینے جا رہی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ دھماکا مستونگ قصبے میں لڑکیوں کے ایک اسکول کے قریب کھڑی ایک موٹر سائیکل میں لگی دیسی ساختہ ڈیوائس سے ہوا۔
دھماکے سے پولیس کی گاڑی اور رکشے کو نقصان پہنچا۔
زخمیوں کو علاج کے لئے سول اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
دریں اثنا، تحقیقات بھی شروع کردی گئی ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسکول پر دھماکہ بلوچستان میں تعلیم کے خلاف دہشت گردوں کی دشمنی کا واضح ثبوت ہے۔
انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ دھماکے کے ذمہ داروں کو گرفتار کرکے مثالی سزا دی جائے۔ انہوں نے زخمیوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بھی دھماکے کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ”غیر انسانی“ عمل ہے اور معصوم بچوں اور لوگوں کے قتل کا بدلہ لیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ شہری علاقوں میں رہنے والے افراد کو بھی دہشت گردوں کے خلاف چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے عفریت سے صرف مل کر لڑا جا سکتا ہے۔
بلوچستان میں رواں سال دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ اس ہفتے کے اوائل میں بلوچستان میں ایک چھوٹے سے ڈیم کی تعمیر کے مقام پر مسلح افراد کے حملے میں 5 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے ایک بیان میں کہا کہ پانچ افراد ہلاک اور دو زخمی ہوئے جو تمام پنجگور میں تعمیراتی مقام پر کام کرتے تھے۔