پاکستان نے جنوبی ایشیا کی ایک ریاست کو جدید ہتھیاروں اور حساس ٹیکنالوجی کی مسلسل فراہمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے کشیدگی سے دوچار خطے میں عدم استحکام کو ہوا مل رہی ہے۔ پاکستان کی جانب سے یہ بیان واضح طور پر بھارت کی جانب اشارہ ہے۔
پاکستانی مندوب گل قیصر نے پیر کے روز جنرل اسمبلی کی تخفیف اسلحہ اور بین الاقوامی سلامتی کمیٹی کو بتایا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا تنازعات میں گھری ہوئی ہے اور قیام امن کی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے تعاون کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، کچھ ممالک پرامن حل تلاش کرنے کے بجائے جنگوں کی مالی اعانت کو ترجیح دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلحے کی تجارت کے معاہدے (اے ٹی ٹی) جیسی کوششوں نے روایتی ہتھیاروں کو ریگولیٹ کرنے میں محدود کامیابی حاصل کی ہے۔
پاکستانی مشن کی قونصلر گل قیصر نے روایتی ہتھیاروں پر ہونے والی بحث میں کہا کہ انسانی، قانونی، اور سلامتی کے پہلوؤں کی بنیاد پر ہتھیاروں کی منتقلی کا جائزہ لینے پر زور دینے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ جدید ہتھیار غیر مستحکم علاقوں میں مسلسل بھرپور طریقے سے داخل ہو رہے ہیں جو اکثر تنازعات کو بڑھاتے ہیں اور حتیٰ کہ نسل کشی جیسے مظالم میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔
پاکستانی مندوب نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیا میں ایک ملک کو جدید ہتھیار اور حساس ٹیکنالوجی فراہم کی جا رہی ہے جس سے عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے حالانکہ وہ ملک اپنے ہمسایہ ممالک کے خلاف معاندانہ پالیسیاں اختیار کرتا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک کنٹرول کے نظام کے قیام کے لیے پرعزم ہے جس میں روایتی طاقت کے توازن کا عنصر بھی شامل ہے، پاکستان خطے میں نہ تو اسلحے کی دوڑ چاہتا ہے اور نہ ہی اس میں ملوث ہے۔
انہوں نے ہتھیاروں کی تجارت کو فروغ دینے والی وجوہات پر توجہ دینے پر بھی زور دیا اور کہا کہ صرف اس کے اثرات پر خصوصی توجہ نہ دی جائے۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ بعض روایتی ہتھیاروں سے متعلق کنونشن (سی سی ڈبلیو) کی کامیابی اس نازک توازن میں مضمر ہے جو انسانی ہمدردی اور ریاستوں کے جائز سلامتی کے مفادات کے درمیان برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان غیر ریاستی عناصر اور دہشت گردوں کی جانب سے دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات (آئی ای ڈی) کے حصول اور استعمال کے امکان کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتا ہے۔
گل قیصر نے کہا کہ مہلک خود مختار ہتھیاروں کے نظام (قوانین) ، جسے ’قاتل روبوٹس‘ بھی کہا جاتا ہے پر کام جاری رہنا چاہئے تاکہ ایک نئے پروٹوکول کے ذریعے بین الاقوامی قوانین وضع کیے جاسکیں جس سے خود مختار ہتھیاروں کے نظام کی ممنوعات اور ضوابط کی وضاحت ہوسکے تاکہ بین الاقوامی انسانی قانون (آئی ایچ ایل) کے ساتھ مطابقت اور سی سی ڈبلیو کے مقاصد کے ساتھ ہم آہنگی کو یقینی بنایا جاسکے۔
انہوں نے فوجی صلاحیتوں میں مصنوعی ذہانت اور خودمختار ہتھیاروں کے نظام کے استعمال کے بارے میں وسیع تر خدشات کو دور کرنے پر بھی زور دیا اور کہا کہ یہ مسائل آئی ایچ ایل سے باہر ہیں جس پر فوری طور پر بین الاقوامی توجہ کی ضرورت ہے۔