ایک کھوکھلی فتح

22 اکتوبر 2024

اگر ہفتوں نہیں تو گزشتہ چند دنوں کے دوران کافی ہنگامہ آرائی کے بعد حکومت بلآخر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے آئین کی 26 ویں ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ لیکن شاید اس کے باوجود حکومت کی جانب سے اپنی ’فتح‘ کا جشن منانا قبل از وقت ہوگا کیوں کہ اس کے اثرات اسے ہوسکتے ہیں جو اسے کھوکھلا بنا سکتے ہیں۔

سب سے پہلے، ترمیم خود۔ کچھ لوگوں کے لیے اطمینان کا باعث ہے کیوں کہ منظور شدہ ترمیم میں 22 شقیں شامل ہیں جو حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے ابتدائی 50 شقوں کے مسودے سے ایک بڑی کمی ہے جسے اس اہم قانون سازی کے معاملے میں بے مثال طریقے سے پوشیدہ رکھا گیا۔

22 شقوں کی یہ کمی اتحاد میں شامل جماعتوں کے تحفظات کی وجہ سے ہوئی لیکن زیادہ کمی مولانا فضل الرحمان کی تنقیدی رائے کی بدولت کی گئی جن کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ووٹ کے بغیر دو تہائی کی طلسماتی تعداد ممکن نہیں تھی۔ مولانا اور ان کی پارٹی نے ترمیم کو سیاہ سانپ ختم کرنے کے طور پر دلکش زبان میں بیان کیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ اس معاملے پر ہونے والے ’مشاورتی عمل‘ میں عیاری، مادی فوائد کی پیشکشوں، اور جبر کے عناصر شامل تھے جس میں نہ صرف اراکین بلکہ ان کے خاندانوں کو بھی دھمکیاں شامل تھیں۔ ان حالات نے پی ٹی آئی کے بیشتر اراکین پارلیمنٹ (ایم پیز) کو کارروائیوں سے دور رہنے پر مجبور کیا تاہم کم تعداد میں جن اراکین نے ہمت کی انہوں نے ترمیم کیخلاف ووٹ دیے۔

اب آئینی قانون سازی کے اس غیر معمولی عمل کے مواد کی بات کرتے ہیں۔ اگرچہ 26 ویں ترمیم میں دیگر معاملات بھی شامل ہیں لیکن اس کا بنیادی محور اور عوام کی دلچسپی کا مرکز عدلیہ سے متعلق شقیں ہیں۔ آرٹیکل 175 اے میں تبدیلی کی گئی ہے تاکہ پاکستان کے عدالتی کمیشن (جے سی پی) میں چار اراکین پارلیمنٹ شامل کیے جا سکیں جن میں سے دو حکومتی اور دو اپوزیشن کی بنچوں سے ہوں گے اور ایک ایک قومی اسمبلی (این اے) اور سینیٹ سے لیا جائے گا۔

یہ واضح نہیں ہے (کم از کم اس لکھنے والے کے لیے) کہ آیا جے سی پی کا اصل ڈھانچہ، یعنی پانچ سپریم کورٹ (ایس سی) کے ججز (جن میں چیف جسٹس آف پاکستان – سی جے پی – شامل ہیں، جو کہ اس کے سربراہ ہیں)، اٹارنی جنرل پاکستان، وفاقی وزیر قانون ، ایک سابق چیف جسٹس اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے نامزد کردہ ایک سینئر وکیل برقرار رہے گا یا صرف ان چار پارلیمنٹرینز کا اضافہ کیا جائے گا۔

سی جے پی کی تقرری کا طریقہ کار کے تحت، جو اب تک سینئر ترین جج کے خود بخود موجودہ چیف جسٹس کی جگہ لینے پر انحصار کرتا تھا ( ایک طریقہ کار ہے جو ہمارے نوآبادیاتی ماضی سے ورثے میں ملا)، اب سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز میں سے پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی۔

کمیٹی ان تین ناموں میں سے ایک نام وزیر اعظم کو ارسال کرے گی جو اسے صدر مملکت کو ارسال کریں گے۔ یہ کمیٹی آٹھ ایم این ایز اور چار سینیٹرز پر مشتمل ہوگی جن کا انتخاب دونوں ایوانوں میں جماعتوں کی تعداد کے تناسب سے کیا جائے گا۔

کمیٹی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے کم از کم 14 دن قبل نئے چیف جسٹس کی تقرری کیلئے اپنا تجویز کردہ نام بھیجنے کی پابند ہوگی۔ تاہم، موجودہ حالات (چیف جسٹس قاضی فیض عیسیٰ کی 25 اکتوبر کو ریٹائرمنٹ، جو حکومت کی جلد بازی کی وضاحت کرتی ہے) کے پیش نظر اس بار کمیٹی کو یہ اجازت دی جائے گی کہ وہ موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین دن پہلے تک اپنی نامزدگی بھیج سکے۔ چونکہ آج، 22 اکتوبر 2024، آخری تاریخ ہے، لہٰذا جب تک یہ سطور شائع ہوں گی تو عین ممکن ہے کہ یہ کام کرلیا گیا ہو جس کا مطلب ہے کہ حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا ہوگا کہ وہ کس کو چیف جسٹس بنانا چاہتی ہے۔

چیف جسٹس کی مدت آرٹیکل 179 میں تبدیلیوں کے ذریعے تین سال مقرر کی گئی ہے جب تک کہ وہ استعفیٰ نہ دیں، 65 سال کی ریٹائرمنٹ کی عمر کو نہ پہنچیں، یا انہیں ہٹایا نہ جائے۔ اگرچہ موجودہ چیف جسٹس 65 سال کی ریٹائرمنٹ کی عمر کو نہیں پہنچتے پھر بھی وہ تین سال کی مدت پوری ہوجانے کی صورت میں ریٹائرڈ تصور ہوں گے۔

26ویں ترمیم جے سی پی کو بھی اختیار دیتی ہے، جو اب ایم پیز کی شمولیت سے متوازن ہے، کہ وہ ججز کے امیدواروں کی جانچ، تشخیص اور تقرری کے لیے فٹنس کے معیارات مرتب کرے۔ اگر کسی ہائی کورٹ کے جج کی کارکردگی کو ’غیر مؤثر‘ سمجھا جائے تو اسے بہتری کے لیے ایک مدت دی جائے گی (کتنی مدت، یہ واضح نہیں ہے)۔ اگر جج بہتری لانے میں ناکام رہے تو جے سی پی کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کو رپورٹ پیش کی جائے گی جو ججوں کو ہٹانے کا اختیار رکھتی ہے۔ ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کے لیے کم سے کم عمر 45 سال سے کم کر کے 40 سال کر دی گئی ہے۔

26ویں ترمیم ایک نیا آرٹیکل 191 اے متعارف کراتی ہے جو سپریم کورٹ کی آئینی بنچوں کی تشکیل کے لیے ہے، جس میں سپریم کورٹ کے ججز شامل ہوں گے، جن کی مدت جے سی پی کی جانب سے نامزد اور طے کی جائے گی اور ان میں سے سب سے سینئر جج صدارت کرے گا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ایسے ججز موجودہ سپریم کورٹ کے ججز میں سے لیے جائیں گے یا کسی اور ذریعہ سے۔

آئینی بنچ میں کم از کم پانچ ججز شامل ہوں گے جن کی نامزدگی ججز پر مشتمل ایک تین رکنی کمیٹی کرے گی، جیسا کہ سپریم کورٹ کے پریکٹس اور پروسیجر ایکٹ میں ہے، جس میں صدر جج اور اس کے بعد کے دو سینئر ترین ججز شامل ہوں گے۔

آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس کا دائرہ اختیار اب آئینی بنچوں (جیسا کہ اب تک چیف جسٹس کے ذریعہ استعمال کیا جاتا تھا) کے پاس ہوگا۔ اگر چاروں صوبائی اسمبلیاں اس مقصد کے لئے قراردادیں منظور کرتی ہیں تو ہائی کورٹس میں بھی اسی طرح کے آئینی بنچ ہوسکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد اور حمایت سے 26 ویں ترمیم عدلیہ کے خلاف ایگزیکٹو کی بغاوت کے مترادف ہے۔عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے اس کے مضمرات جلد ہی واضح ہو سکتے ہیں۔ اس بارے میں زیادہ اچھی توقع نہیں کی جا سکتی۔ تاہم، انصاف اور غیر جانب داری کے لیے یہ کہنا ضروری ہے کہ عدلیہ خود بھی اپنی تاریخ کے افسوسناک ریکارڈ کی وجہ سے اس معاملے کی ذمہ دار ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس میں ہر فوجی بغاوت اور مارشل لا کو قانونی حیثیت دینا شامل ہے، جس کی آخری مثال جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار دینا ہے جب انہوں نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کیا تو وکلا تحریک نے انہیں بحال کرایا۔

اس کے بعد چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے بحال کردہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اتنا آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے ملک کو کافی مسائل میں ڈال دیا جن میں ریکو ڈک کا قریب ہونے والا سانحہ بھی شامل ہے۔

دیگر چیف جسٹسس، جیسے کھوسہ، ساقب نثار، وغیرہ نے بھی ایسی حدود سے تجاوز کیا جو کسی بھی صورت میں ان کے اختیار یا انصاف اور آئین کے تحفظ کے دائرے میں سمجھی جا سکیں، جو واضح طور پر عدلیہ کی سیاست کے زیر اثر تھا۔

اور میں تو چیف جسٹس منیر کا ذکر بھی نہیں کر رہا جن کے نظریہ ضرورت نے پاکستان کے آغاز میں عدلیہ کے نظام کو درہم برہم کر دیا تھا۔

ایگزیکٹو اور عدلیہ کے درمیان اس کشمکش میں، جب اسٹیبلشمنٹ اپنی گزشتہ اسکرٹس کے پیچھے چھپنے میں کامیاب نہیں ہوپارہی، کوئی بھی بے گناہ نہیں ہے۔ ماضی اور حال سے متعلق ان کی بد اعمالیوں نے ہمیں اس افسوسناک موڑ پر پہنچادیا ہے، پوری کہانی اس تلخ حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ ہمیں ادارے بنانے یا ان کا دفاع کرنے کا کوئی علم نہیں بلکہ صرف انہیں تباہ کرنے کی ایک نایاب صلاحیت ہے۔

Read Comments