سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کے بچوں کی بھرتیوں سے متعلق پالیسیاں کالعدم قرار دے دیں

18 اکتوبر 2024

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سرکاری ملازمین کے بچوں کی ملازمتوں کے کوٹہ سے متعلق تمام پالیسیاں اور پیکیجز کالعدم قرار دے دیے۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جنرل پوسٹ آفس (جی پی او) کی اپیل پر سماعت کی اور اپنا فیصلہ سنایا۔ پی ایچ سی نے جی پی او کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ ایک شہری کو اس کے والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت دینے کے لیے غور کرے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پالیسیوں، دفتری یادداشتوں، وزیراعظم پیکیج کے تحت ملازمت، مالی امدادی پیکیج، سندھ سول سرونٹس (تقرر، ترقی اور تبادلے) رولز 1974 کے سیکشن 11-اے ، خیبر پختونخوا سول سرونٹس (تقرر، ترقی اور تبادلے) رولز 1989 کے سیکشن 10 (4)، بلوچستان سول سرونٹس (تقرر، ترقی اور تبادلے) رولز 2009 کے سیکشن 12 یا کوئی اور قاعدہ، پالیسی، یادداشت وغیرہ جس کے تحت کسی بھی درجے میں سرکاری ملازمین کی بیوہ، بیوی، شوہر یا بچے کا تقرر بغیر کسی اشتہار، مسابقت اور میرٹ کے، جو خدمت کے دوران وفات پا جاتے ہیں یا مستقل طور پر معذور ہوجاتے ہیں اور مزید خدمت کے لیے نااہل ہوجاتے ہیں، کو امتیازی اور آئین کے آرٹیکلز 3، 4، 5 کی ذیل شق 2، آرٹیکل 18 اور 25 کی شق 1 اور آرٹیکل 27 سے متصادم قرار دیا ہے۔

11 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ ان پالیسیوں اور پیکجز کو فوری طور پر واپس لے لیں۔

حکم نامے کے مطابق واضح کیا جاتا ہے کہ فوری فیصلے سے بیوہ/ شوہر/ متوفی یا ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے بچوں کی تقرریوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

یہ فیصلہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پالیسیوں، قواعد یا معاوضے کے پیکیج پر اثرانداز نہیں ہوگا جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شہید اہلکاروں اور دہشت گرد کارروائیوں کے نتیجے میں شہید ہونے والے سول سرونٹس کے قانونی ورثاء کے فوائد کیلئے ہیں۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت ریاست کسی بھی قسم کے استحصال کا خاتمہ یقینی بنانانا اور بنیادی اصولوں کی بتدریج تکمیل ریاست کی ذمہ داری ہے یعنی کسی بھی شخص کا تقرر کام اور اس کی صلاحیتوں کے مطابق کیا جائے۔

حکم نامے کے مطابق سرکاری ملازم کی بیوہ، متوفیہ خاتون کا شوہر یا یا بچے کو اشتہار، مسابقت اور میرٹ کے بغیر کنٹریکٹ یا باقاعدگی سے مختلف گریڈوں میں تعینات کرنا بھی آئین کے آرٹیکل 18 کی خلاف ورزی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق وضح کردہ معیار اور اہلیت کے تحت کسی بھی شہری کو کسی بھی قانونی پیشے یا کاروبار میں داخل ہونے اور کسی قانونی تجارت یا کاروبار کا حق حاصل ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایسی تقرریاں بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جو عام اہل شہریوں کو اپنی قابلیت اور اہلیت کے مطابق سروس میں داخل ہونے کے لیے مسابقت سے روکتی ہیں اور اگر ایسی تقرریاں کی گئیں تو مواقع، مسابقت، میرٹ کی نفی کریں گی جبکہ اچھی طرز حکمرانے کے مقاصد کو بھی ناکام بنائیں گی۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ صوابدیدی اختیارات کو غیر مناسب یا من مانے طریقے سے استعمال کرکے اچھی حکمرانی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ یہ مقصد آئین اور آئین کے مذکورہ بالا آرٹیکلز میں درج انصاف، شفافیت اور کھلے پن کے اصولوں پر عمل کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

Read Comments