خام تیل کی مارکیٹ میں پینک اٹیک نے ممکنہ طور پر نیند میں ڈوبے جو بائیڈن کے فون کو وزارت خزانہ اور پینٹاگون کی جانب سے بےچین کالوں سے جگا دیا ہو گا۔ اچانک اضافے نے خام تیل پر ریکارڈ ہیج فنڈ بیئرش کی شرطوں کو بے نقاب کر دیا اور قیمتوں میں ایک ڈرامائی اضافے کو جنم دیا، جو اُن ماہرین کے لیے شرمندگی کا باعث بناجو پچھلے سال سے یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی تیل کی روایتی اہمیت پر اثرانداز نہیں ہوگی اور یہ کہ “اصل بحران تیل کی کمی نہیں، بلکہ زیادتی ہے۔
یہ یقینی طور پر کملا ہیرس کو سوچنے پر مجبور کر رہا ہوگا کہ کیا اسرائیل کو ایران کی تیل کی تنصیبات پر حملہ کرنے دینا واقعی سمجھداری ہے — کیونکہ اب بدلے کی اس جنگ میں باری بیبی (نیتن یاہو) کی ہے۔ یقیناً، اس سے آیت اللہ کو ایک سخت دھچکا لگے گا، لیکن اس سے مارکیٹ میں ایک اور ہلچل پیدا ہو جائے گی اور ان قیاس بازوں کو متوجہ کر لے گا جنہیں بلومبرگ نے چند دن پہلے ”تیل مارکیٹ کے سیاح“ کہہ کر ناانصافی کی تھی، اور ممکنہ طور پر ایک ببل (مصنوعی قیمتوں میں اضافہ) پیدا ہو جائے گا۔
اس کا لازمی مطلب یہ ہوگا کہ پٹرول پمپ پر قیمتیں بڑھ جائیں گی، بالکل اسی وقت جب امریکی ووٹرز اپنی تاریخ کے سب سے متنازعہ انتخابات میں سے ایک کا فیصلہ کر رہے ہوں گے، اور وہ بھی ایسے وقت میں جب 40 سال کی بلند ترین افراطِ زر کی شرح کم ہو رہی ہے اور سود کی شرحیں بالآخر نیچے آ رہی ہیں۔ صورتحال اُس وقت اور بھی بدتر ہو جائے گی جب ایران اپنی باری پر آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگیں بچھا دے گا یا اسے بند کر دے گا۔ اور چاہے اگر امریکی بمبوں کی حقیقت، جو اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں سے فائر کیے جا رہے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو ہلاک کر رہے ہیں، امریکی عوام کو اپنے رہنماؤں کو جوابدہ ٹھہرانے پر مجبور نہیں کرتی، تو مہنگا ایندھن اتنی بے رحمی سے ایسا کریگا کہ یہ مالیاتی منڈیوں میں ایک نیا معمول بن جائیگا۔
اس کے باوجود اسرائیل یقیناً ایران کے اندر کہیں پر حملہ کرے گا، اور بہت سخت حملہ کرے گا۔ اسرائیل اپنے منصوبے واشنگٹن کے ساتھ بھی شیئر نہیں کر رہا، اور امریکی مایوسی اب میڈیا میں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہے (سب جانتے ہیں کہ جب ایسا ہوتا ہے تو کیا مطلب ہوتا ہے)۔ وال اسٹریٹ جرنل نے بدھ کے روز رپورٹ کیا کہ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے بائیڈن انتظامیہ کو تہران کے خلاف جوابی کارروائی کے منصوبوں کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا ہے، جبکہ وائٹ ہاؤس اپنے قریبی مشرق وسطیٰ کے اتحادی پر زور دے رہا ہے کہ ایران کی تیل کی تنصیبات یا ایٹمی مقامات کو نشانہ نہ بنایا جائے، کیونکہ ایک وسیع علاقائی جنگ کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اسرائیل کی پوزیشنوں کا دفاع کرنے پر مجبور ہونے اور اندھیرے میں رکھے جانے سے تنگ آ کر، اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ سے پوچھا کہ آیا اسرائیل اس جنگ میں ”اکیلا“ لڑنے کے لیے تیار ہے؟ یہ اس وقت کی بات ہے جب امریکیوں کو حسن نصراللہ کو قتل کرنے کے منصوبے کے بارے میں اطلاع نہیں دی گئی، حالانکہ نیویارک سے نیتن یاہو نے اس کا حکم دیا تھا۔
اسرائیل کی جانب سے حماس کو شدید نقصان پہنچانا اور حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت کو ختم کرنا اس جنگ کے سب سے بڑے انعامات رہے ہیں۔ لیکن یہ اب بھی اپنے اصل جنگی مقاصد سے بہت دور ہے، جیسے کہ مزاحمت کو مکمل طور پر ختم کرنا اور یرغمالیوں کو واپس لانا؛ یا نیا مقصد، جو لبنان کی سرحد سے ملحق شمالی علاقے گلیل کو دوبارہ قابل رہائش بنانا ہے۔
یہ سب کچھ کرنے میں، اور معصوم فلسطینیوں اور لبنانیوں پر موت مسلط کرنے میں اسرائیل کو ”انکل سیم“ یعنی امریکہ کی غیر مشروط حمایت حاصل رہی ہے۔ اور اب جب کہ اسرائیل نے ایران کو براہ راست جنگ میں گھسیٹ لیا ہے، اسے براہ راست امریکی مداخلت کی بھی ضرورت ہوگی۔ لیکن نیتن یاہو کے جنگی منصوبے، جو ان کی دائیں بازو کی کابینہ میں حمایت پاتے ہیں، ملک کے باقی حصوں میں بڑھتی ہوئی مخالفت کا شکار ہو رہے ہیں اور اب یہ امریکی داخلی سیاست کے لیے بھی ایک بوجھ بن رہے ہیں۔
یہ صورتحال ڈیموکریٹس کو ضرور پریشان کرے گی؛ ورنہ بھلا وہ اپنی مایوسی میڈیا میں کیوں ظاہر کرتے؟ ”نسل کشی کرنے والے جو بائیڈن“ کو تو کوئی شک نہیں کہ نومبر کے بعد وہ پھر سے آرام کی نیند لینا چاہیں گے، لیکن کملا ہیرس ہرگز اس بات سے خوش نہ ہوں گی کہ الیکشن کے وقت ایندھن کی قیمتیں بڑھ جائیں، صرف اس وجہ سے کہ بیبی (نیتن یاہو) نے امریکہ کی مکمل حمایت کے باوجود ان کی بات نہیں سنی۔
یورپی بھی ناخوش ہیں۔ یورو زون میں سالانہ افراط زر اب 1.8 فیصد ہے، جو تین سالوں میں پہلی بار یورپی مرکزی بینک کے 2 فیصد ہدف سے کم ہے، اس لیے شرح سود میں فیڈرل ریزرو کے ساتھ ساتھ کمی کی گئی ہے۔ لیکن مہنگا تیل ہر چیز کو مہنگا کر دیتا ہے۔ رائٹرز کے کالم نگار جیمی میک گفیر کے مطابق، ”معیشت کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں تیل کا اثر نہ پہنچے۔ یہ گھروں اور کاروباروں کو گرم کرتا ہے، کارخانوں کو توانائی دیتا ہے، ہر طرح کی ٹرانسپورٹ کو چلاتا ہے، اور کیمیکلز، پلاسٹک، مواد اور ہر طرح کی اشیاء کی پیداوار میں ایک اہم جزو ہے“۔ تو جب تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں، تو باقی سب کچھ بھی مہنگا ہو جاتا ہے۔
فرانس کے صدر میکرون نے آخرکار اسرائیل کو ہتھیار بیچنے کی مخالفت میں آواز اٹھائی، اور نیتن یاہو کی جانب سے متوقع ”شرم کرو“ والے ردعمل کا سامنا کیا۔ لیکن یورپی میڈیا میں اسرائیلی حربوں اور بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کرنے پر ان کے رہنماؤں کے صدمے سے متعلق خبریں بھری پڑی ہیں۔ اور اب جب کہ اسرائیل کی کارروائیاں دنیا بھر کے عام لوگوں کی زندگی کو مہنگا بنانے کا خطرہ بن رہی ہیں، اور مزید رہنما آواز اٹھا رہے ہیں، کیا بیبی (نیتن یاہو) سب کو اسی انداز میں جواب دیں گے؟
وقت اسرائیل کے جواب کے لیے تیزی سے گزر رہا ہے۔ کوئی بھی یہ توقع نہیں کرتا کہ اس کا جواب نرم ہوگا۔ لیکن کیا یہ امریکہ کے لیے بھی سخت ہوگا؟ خاص طور پر جب لوگ پٹرول اور دیگر اشیاء کی قیمتیں ادا کر رہے ہوں اور بڑے سیاستدانوں کو اندھی حمایت جاری رکھنے کی قیمت چکانی پڑے گی؟
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024