سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی ہے کہ آئین میں ترمیم کیلئے ’مجوزہ پیکج‘ کو چیلنج کرنے والی درخواست کو فوری طور پر سپریم کورٹ (پریکٹس اور پروسیجر) ایکٹ 2023 کی دفعہ 4 کے تحت تشکیل دی گئی کمیٹی کے سامنے رکھے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے سابق صدر عابد شاہد زبیری اور پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے 5 ارکان نے 16 ستمبر کو آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت درخواست دائر کی تھی، جس میں وفاق کی جانب سے سیکریٹری وزارت قانون و انصاف، چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز، سیکریٹری قومی اسمبلی اور سینیٹ، وزیر اعظم اور صدر کے پرنسپل سیکریٹریز کو فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ مجوزہ ترمیمی بل (جس کی مکمل نقل درخواست گزاروں کے پاس دستیاب نہیں ہے) عدلیہ کی آزادی، انصاف تک رسائی کے حق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو منسوخ کرنے کی کوشش ہے، جس سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کو تباہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ اختیارات کی تقسیم، عدلیہ کی آزادی اور بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے اس کے اختیارات اور فرائض کو آئین کے تحت مقدس قرار دیا جائے، اور یہ اعلان کیا جائے کہ پارلیمنٹ کو ان اختیارات کو ختم کرنے، مداخلت کرنے یا کسی بھی صورت میں چھیڑ چھاڑ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بھی استدعا کی ہے کہ مجوزہ ترامیم کو آئین، اختیارات کی تقسیم کے اصول، عدلیہ کی آزادی اور بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیا جائے۔ انہوں نے مزید درخواست کی کہ وفاقی حکومت کو بل پیش کرنے سے روکا جائے، مجوزہ ترامیم پر عمل درآمد کو معطل کیا جائے، دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کی صورت میں اس کی منظوری سے روکا جائے اور بل کے ذریعے پیش کی جانے والی مجوزہ ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ مجوزہ بل میں آئین میں 40 سے زائد ترامیم شامل ہیں، جن میں ایک وفاقی آئینی عدالت کا قیام، آئین کے آرٹیکل 175-اے سمیت دیگر ترامیم، سپریم کورٹ اور پاکستان کی ہائی کورٹس کے اختیارات کو ایگزیکٹو کو منتقل کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ، آئین کے آرٹیکلز 17 اور 63-اے میں بھی ترامیم کی گئی ہیں، جو پارلیمنٹ کے ارکان کو انحراف کی بنیاد پر نااہل کرنے سے متعلق ہیں۔ یہ ترامیم سیاسی جماعتوں اور ووٹرز کو منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کرنے کے حق سے محروم کردیں گی۔