ہفتے کے روز سینیٹ میں قائد ایوان اور نائب وزیراعظم، سینیٹر اسحاق ڈار نے ایوان بالا کو بتایا کہ آئینی بل میثاق جمہوریت کے (چارٹر آف ڈیموکریسی) کے تحت ہے جس کی منظوری تمام سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دی ہے۔
قائد ایوان سینیٹ کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے جس کی صدارت چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کی۔
سینیٹر اسحاق ڈار نے نشاندہی کی کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی پارٹی قیادت کے درمیان اختلاف ہے۔ “یہ پارلیمنٹ میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا تیسرا ان کیمرہ اجلاس تھا جس میں چیئرمین پی ٹی آئی، بیرسٹر گوہر علی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے شرکت کی جو گزشتہ دو اجلاسوں میں غیر حاضر تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن لیڈر کو خصوصی کمیٹی کے اجلاسوں کی تفصیلات اپنے ساتھیوں سے لینی چاہئیں۔
سینیٹر اسحاق ڈار نے ایوان کو بتایا کہ یہ مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ کی وقار کی بحالی کے لیے مشترکہ کوششوں کے لیے ایک بیان دیا اور ایوان زیریں کے کچھ ارکان کی گرفتاری پر تمام سیاسی جماعتوں کی ایک کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حکومت کی طرف سے فوراً اس تجویز کی حمایت کی اور ایوان کی قرارداد کے بعد ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں قومی اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہے۔ میں درخواست کروں گا کہ سینیٹ کو بھی نمائندگی دی جائے کیونکہ یہ عمومی مسائل پر ایک خصوصی باڈی ہے اور قرارداد ٹی او آرز میں پارلیمنٹ، پارلیمنٹرینز، آئین اور قواعد و ضوابط کے امور شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئینی بل سے متعلق مسائل کو خصوصی کمیٹی میں زیر بحث لایا گیا ہے، اپوزیشن لیڈر کو اپنے ساتھیوں سے تفصیلات لینی چاہئیں، انہوں نے مزید کہا، میثاق جمہوریت کے تحت، آرٹیکل 4 میں ملک میں ایک آئینی عدالت کا مطالبہ کیا گیا تھا تاکہ آئینی درخواستوں کی سماعت کی جا سکے اور انہیں نمٹایا جا سکے۔ ملک میں اشرافیہ کو فوری سماعت ملتی ہے جبکہ سپریم کورٹ میں 60,000 کیسز زیر التوا ہیں جن میں سے 25 فیصد آئینی درخواستیں ہیں اور ہائی کورٹس میں 50 فیصد آئینی درخواستیں ہیں۔“
انہوں نے مزید کہا کہ یہ میثاق دو سیاسی جماعتوں نے نہیں کیا تھا بلکہ چند ہفتوں بعد تمام سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا اور انہوں نے اس دستاویز کی منظوری دی جن میں اُس وقت کے پی ٹی آئی چیئرمین اور بانی بھی شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اسے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر سراہا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی اور اہم دستخط کنندگان نے اس دستاویز پر دستخط کیے ہیں لہٰذا اس میں کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے۔ میں بل سے متعلق کوئی معلومات نہیں رکھتا اور یہ وزیر قانون کا استحقاق ہے۔
قائد ایوان نے کہا کہ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے بلکہ کسی بھی حکومت میں معمول کی قانون سازی کی مشق ہے۔ ہمیں آئینی درخواستوں میں انصاف کی فراہمی میں تاخیر کو کم کرنے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔ اپوزیشن کو حکومت کی حمایت کرنی چاہیے اور میں اپوزیشن کو یقین دلاتا ہوں کہ قانون سازی میں کوئی حیران کن بات نہیں ہوگی کیونکہ ہمیں عوامی مسائل کو حل کرنا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ اپوزیشن اور حکومتی بنچوں کو عوامی اور قومی مفاد کے معاملات پر تعاون کرنا چاہیے کیونکہ اس بل میں کوئی چیز اس کے منافی نہیں ہوگی۔
قبل ازیں، چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے وضاحت کی کہ ان کے خلاف کراچی میں ایک مقدمہ زیر سماعت ہے، جہاں عدالت نے ان سے آئینی ترمیم کے لیے درکار تعداد، کیا یہ چیف جسٹس کے لیے ہے اور بل کی تفصیلات سے متعلق تین سوالات پوچھے تھے۔ “میں نے یقین دلایا کہ اگر اکثریت نہیں ہوئی تو کوئی بل پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جائے گا۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک میرے ساتھ تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ چیف جسٹس کے لیے ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ یہ کسی فرد کے لیے نہیں بلکہ ملک اور قوم کے مفاد میں ہے۔ تاہم، میں اب بھی بل کے بارے میں نہیں جانتا۔ وزیر قانون قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کے بعد اپنی وضاحت دیں گے۔
انہوں نے ایوان کو بتایا کہ 1973 کا آئین ایوان کے 128 ووٹوں سے منظور کیا گیا تھا اور باقی مشرقی پاکستان میں تھے۔ “آئین کی اصل شکل میں بحالی کے بعد، یہ ایک دو ایوانی نظام تھا نہ کہ ایک ایوانی نظام جو پارلیمنٹ کے 446 ارکان نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ ہم نے پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کرنے کے لیے 58 (2) (B) کو ختم کیا، پھر اس وقت کی صدر سپریم کورٹ بار آصمہ جہانگیر نے مجھے بتایا کہ اس پر خوش نہ ہوں کیونکہ اسے عدلیہ استعمال کرے گی اور مجھے نااہل قرار دیا گیا اور پھر میاں نواز شریف کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑا۔