سب کی نظریں آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالر کے پروگرام پر

14 ستمبر 2024

حکومت کی جانب سے سبسڈی اور ٹیکس مراعات کی فراہمی دو ایسے اقدامات ہیں جو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سرزنش سے کبھی نہیں بچ سکتے۔ عالمی ادارہ ان دونوں اقدامات کو نا پسند کرتا ہے۔ صرف اسی ہفتے میں اس سلسلے میں دو ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ صرف اس ہفتے میں ہی ان کی وجہ سے دو واقعات سامنے آئے ہیں۔

اگرچہ آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کی منظوری ابھی زیر غور ہے، کوئی نئی خصوصی اقتصادی یا برآمدی پروسیسنگ زونز قائم نہ کی جائیں جو ٹیکس مراعات حاصل کریں، اور موجودہ زونز کی مراعات کی مدت ختم ہونے کے بعد مزید توسیع نہ کی جائے۔ حکومت نے بغیر کسی اعتراض کے ان شرائط کو قبول کر لیا ہے۔

اسی دوران فنڈ نے حکومت کو فوری طور پر اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) اور پنجاب کے صوبے کے صارفین کے لیے 14 روپے فی یونٹ بجلی سبسڈی واپس لینے کی ہدایت دی ہے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کے لیے 201 سے 500 یونٹس کی کھپت والے گھریلو سنگل فیز صارفین کے لیے 14 روپے فی یونٹ سبسڈی ستمبر 2024 کے بلنگ مہینے سے ختم کر دی جائے گی، پنجاب کے صارفین کے لیے سبسڈی 30 ستمبر تک جاری رہے گی۔

مزید برآں آئی ایم ایف نے پروگرام کے 37 ماہ کی مدت کے دوران تمام صوبوں کو کسی بھی قسم کی سبسڈی دینے سے روک دیا ہے۔ بجلی کے بلوں پر ایڈہاک سبسڈی دینا ایک سیاسی چال تھی۔ وفاقی اور پنجاب دونوں حکومتیں اچھی طرح جانتی تھیں کہ اس کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اسے ختم کرنا پڑے گا کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے فنڈ سب سے زیادہ ناپسند کرتا ہے۔ اس کے نتائج میں سیاسی فائدے لینے کا موقع ضائع ہوگیا۔

نئے خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) اور برآمدی پروسیسنگ زونز (ای پی زیڈز) کی معطلی کا پاکستان کی موجودہ اقتصادی حالت پر قریبی مدت میں کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا، سواے اس خصوصی زون کے جو چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت گوادر میں منصوبہ بندی کے مرحلے میں ہے۔ موجودہ نئے خصوصی اقتصادی زونز کو مکمل طور پر آباد ہونے میں مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ کچھ نئے زونز منصوبہ بندی کے مرحلے میں ہیں اور کچھ موجودہ اقتصادی بحران کے پیش نظر غیر ضروری نظر آتے ہیں۔

پاکستان نے سی پیک کے تحت نو خصوصی اقتصادی زون قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اب تک اس نے دو زونز پر کام شروع کیا ہے جن میں کے پی میں رشکئی اسپیشل اکنامک زون اور فیصل آباد میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی شامل ہیں۔

دھابیجی اسپیشل اکنامک زون سندھ اور بوستان اسپیشل اکنامک زون بلوچستان منصوبہ بندی کے مختلف مراحل میں ہیں۔

منصوبہ سازوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط سے آئی سی ٹی ماڈل انڈسٹریل زون، اسلام آباد، پاکستان اسٹیل ملز کی زمین پر انڈسٹریل پارک، میرپور انڈسٹریل زون، مہمند ماربل سٹی اور مقندوس اسپیشل اکنامک زون خاص طور پر متاثر ہوں گے۔

ایس ای زیڈز اور ای پی زیڈز کو خاص سہولتیں اور ٹیکس مراعات فراہم کی جاتی ہیں تاکہ کاروباروں کو تجارتی سرگرمیوں کے مراکز قائم کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔ اس کا مقصد پاکستان کی 11 فیصد سے زیادہ بے روزگاری اور 40 فیصد سے زیادہ غربت کی شرح کو کم کرنا ہے۔

ایس ای زیڈ ایکٹ کے تحت سرمایہ کار زون ڈویلپرز، مشترکہ ڈویلپرز اور زون انٹرپرائزز کے لیے 10 سال تک انکم ٹیکس سے استثنیٰ کے حقدار ہیں۔

گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے زون ڈویلپرز کو 7 ارب روپے کی چھوٹ دی تھی۔

پاکستان طویل عرصے سے سی پیک کے دوسرے مرحلے کے حصے کے طور پر ان زونز میں چینی صنعتوں کو راغب کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ یہ جلد ہی ہوگا۔ صنعت کو مارکیٹ اور مسابقت کی ضرورت ہے جو فی الحال چیلنجنگ ہیں۔

بہت سے ایس ای زیڈ منصوبہ بندی کے مرحلے میں ہیں جبکہ دیگر کو آپریشنل ہونے کے لئے مناسب بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے زونز کو آباد کرنے کے لئے فنڈز اور صارفین کے حوالے سے عزم کی ضرورت ہوتی ہے- دونوں اس وقت نایاب ہیں۔

ہمیشہ کی طرح ایس ای زیڈ اور ای پی زیڈ کو روکنے کے لئے آئی ایم ایف کی شرط کے پیچھے بہت سے سازشی نظریات موجود ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کا ہدف پاک چین تجارتی تعاون ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے سوال یہ ہے کہ صرف ٹیکس چھوٹ ہے۔ اس کے علاوہ حکومت اپنے طور پر یا سی پیک کے تحت زیادہ سے زیادہ صنعتی زونز بنا سکتی ہے۔ اس وقت چین خود ایس ای زیڈ کو آباد کرنے کا خواہاں نہیں ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے اگلی متوقع سرزنش نجکاری کے عمل اور وزارتوں کی جانب سے تخفیف اور معقولیت کے حوالے سے ہو سکتی ہے۔ اس بارے میں متضاد رپورٹس موجود ہیں، جو شاید آئی ایم ایف کو پسند نہ آئیں۔

اطلاعات کے مطابق یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ وزارت منصوبہ بندی کے کردار کی قیمت پر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں وزارت خزانہ کے غلبے کی وجہ سے ایسی شرائط کو قبول کیا گیا ہے جو مالی طور پر دانشمندانہ نظر آتی ہیں لیکن اس کے بڑے سماجی و اقتصادی اخراجات ہوتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ماضی میں پلاننگ کمیشن آئی ایم ایف مذاکرات میں اہم کردار ادا کرتا تھا لیکن اب وزارت خزانہ نے کمیشن کو سائیڈ لائن کر دیا ہے جس کے نتیجے میں سنگین سماجی و اقتصادی مضمرات کی شرائط کو قبول کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف کا 7 ارب ڈالر کا توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) آئی ایم ایف کا معیاری پروگرام نہیں ہے جو مذاکرات کے لیے کھلا ہے۔ یہ ایک بیل آؤٹ پروگرام ہے، جس میں مذاکرات کے لیے عملی طور پر کوئی گنجائش نہیں ہے۔

جب وزارت منصوبہ بندی کا کردار اہم تھا اس وقت مذاکرات کیلئے پاکستان کے پاس بہت کچھ تھا۔ آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان موجودہ تعلقات محدود ہیں، پاکستان اپنی بقا کیلئے صرف آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کررہا ہےاور فنڈ اس بات کو یقینی بنارہاہے کہ پاکستان اتنا لچکدار رہے کہ قرض کی ادائیگی کرسکے۔

سماجی و اقتصادی عوامل آئی ایم ایف کے لیے زیادہ اہمیت نہیں رکھتےاور حکومت بھی ملک اور عوام پر پڑنے والے اثرات کو نظرانداز کر رہی ہے۔ موجودہ فوری ضرورت پروگرام سے فائدہ اٹھانے کی ہے اور ان مشکلات کو محدود کرنے کی ہے جو بار بار ابھرتی ہیں اور پھر نظرانداز کر دی جاتی ہیں۔

Read Comments