وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے منگل کے روز ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی ایک تقریر میں آئی ایم ایف کے نئے ممکنہ قرض پروگرام پر حتمی معاہدے کی تاخیر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تین دوست ممالک چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور نجی قرض دہندگان کی جانب سے بیرونی فنانسنگ کی یقین دہانی جلد متوقع ہے؛ جس کے بعد 7 ارب ڈالر کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کو حتمی منظوری کے لیے آئی ایم ایف بورڈ کے سامنے رکھا جائے گا جس کے لیے 12 جولائی 2024 کو اسٹاف لیول ایگریمنٹ (ایس ایل اے) طے پایا تھا۔
آئی ایم ایف پیکیج کا بڑا حصہ، جسے صحیح معنوں میں ’بیل آؤٹ پیکیج‘ کہا گیا ہے، قرض کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا تاکہ ڈیفالٹ سے بچا جا سکے۔ تاہم محفوظ حالات تک پہنچنے کے لیے دیگر ذرائع اور داخلی آمدنی سے بہت زیادہ فنڈز کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کا اگلا اہم قدم خسارے میں جانے والی پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کی نجکاری اور جہاں ممکن ہو وہاں ان کی دوبارہ تنظیم نو ہے۔ اس کے ساتھ حکومت کے اخراجات میں زبردست کمی کی بھی ضرورت ہے۔
البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سنگ میل کی سیاسی قیمت اور نتائج برسراقتدار پارٹی کے لیے ہیں جس کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوتی ہے۔ حکومت اب اس پر آگے بڑھنے کے لئے تیار ہے۔
نجکاری سے متعلق متضاد میڈیا رپورٹس ہیں اور حکومت کو اپنا موقف واضح کرنا چاہئے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے 33 ریاستی ملکیتی اداروں (ایس او ایز) کو بند کرنے، ریگولیٹر کی 60 فیصد خالی آسامیوں کو ختم کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی پہلے مرحلے میں ڈیڑھ لاکھ نان کور سروسز اور 6 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کا منصوبہ ہے۔
اسی تناظر میں رواں ہفتے ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے 82 ریاستی ملکیتی اداروں (ایس او ایز) کے انضمام اور تحلیل کے لیے سرکاری محکموں کی تنظیم نو سے متعلق اعلیٰ سطحی کمیٹی کی جانب سے پیش کی گئی سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔
ان 82 اداروں کو ڈیجیٹلائزیشن، اسمارٹ مینجمنٹ، موثر گورننس، شفافیت اور عام آدمی کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لئے تیزی سے عملدرآمد کے ذریعے مضبوط اداروں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
کفایت شعاری کمیٹی، رائٹ سائزنگ کمیٹی اور وزیر اعظم کی جانب سے حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کے رکن قیصر بنگالی نے اپنے استعفے میں اخراجات کم کرنے کے حکومتی عزم کے فقدان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں شدید مایوسی ہوئی کہ 70 سرکاری اداروں کا جائزہ لیا گیا، کمیٹی نے 17 تجارتی اداروں کی نجکاری اور 52 سرکاری اداروں کو برقرار رکھنے کی سفارش کی جبکہ صرف ایک کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
حال ہی میں کراچی پریس کلب (کے پی سی) میں میڈیا بریفنگ کے دوران قیصر بنگالی نے کہا کہ کمیٹی کی توجہ تقریباً تمام سرکاری اداروں کو برقرار رکھنے بلکہ انہیں زیادہ موثر بنانے پر مرکوز ہوگئی ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ کمیٹی کو دی گئی اپنی تفصیلی رپورٹ میں انہوں نے 17 ڈویژنز اور تقریبا 50 سرکاری اداروں کو ختم کرنے کی سفارش کی تھی جس سے گریڈ 20 سے 22 کے عہدوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ کمی ہوتی اور غیر تنخواہی اخراجات میں سالانہ 30 ارب روپے سے زائد کی بچت ہوپاتی۔
تاہم اس موضوع پر وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کے دو بیانات معنی خیز ہیں اور اپنے موقف پر قائم ہیں: (1) حکومت کا کاروبار کرنا نہیں ہے۔ (2) ”اسٹریٹجک ریاستی ملکیتی ادارے“ (ایس او ایز) جیسی کوئی چیز نہیں - جیسا کہ انہوں نے نجکاری کی ضرورت پر زور دیا۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان بیانات کے مطابق عملی طور پر کتنی تبدیلیاں آتی ہیں۔
نجکاری کے وقت بار بار ’قومی اسٹریٹجک اثاثے‘ کی اصطلاح کو اس وقت کے موجودہ سیاسی اور ذاتی مفادات کے مطابق نئے سرے سے بیان کیا گیا ہے۔ ریاست پاکستان کو اس کی وجہ سے بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ شوکت عزیز کے دور میں پاکستان اسٹیل اور پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو نجکاری کے لیے پیش کیا گیا۔
اس وقت پی ایس او ایک بلیو چپ کمپنی تھی اور اسے دنیا کی 500 فارچیون کمپنیوں میں شمار کیا جاتا تھا جبکہ پاکستان اسٹیل ملز اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے جدوجہد کر رہی تھی۔ دونوں کاروباری اداروں نے عالمی سرمایہ کاروں کی بے پناہ دلچسپی حاصل کی اور بہت پرکشش پیشکشوں پر کارروائی کی جارہی تھی۔
تاہم آخری لمحات میں پی ایس او کی نجکاری کے منصوبے کو اسٹریٹجک ریاستی اثاثہ قرار دینے کی بنیاد پر منسوخ کردیا گیا جبکہ پاکستان اسٹیل ملز عدالتی مداخلت کا شکار ہوگئی۔ پی ایس او آج اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہی ہے جبکہ پاکستان اسٹیل ملز بند ہوگئی ہے۔ یہ بڑے پیمانے پر قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی اکائی ہے۔
ایک بار پھر نجکاری کے موجودہ مرحلے کے دوران ’نیشنل اسٹریٹیجک اثاثہ جات‘ کی اصطلاح کی از سر نو وضاحت کی جا رہی ہے۔
کابینہ کمیٹی برائے ریاستی ملکیتی ادارے (سی سی او ایس او ایز) نے اس ہفتے اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا) کو لازمی ایس او ای، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (پی این ایس سی) کو اسٹریٹجک ایس او ای، ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کو ایس او ایز پالیسی 2023 کے تحت لازمی ایس او ای قرار دینے کی سمری کی منظوری دی۔ جیسے جیسے یہ عمل آگے بڑھتا ہے مزید اداروں کو فہرست میں شامل کیے جانے کا امکان ہے۔
سمیڈا، جو اکتوبر 1998 میں قائم کی گئی تھی، کا مقصد ملک میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی ترقی اور نمو کو فروغ دینا اور سہولت فراہم کرنا تھا۔ اسے حکومتِ پاکستان کے لیے ایس ایم ای پالیسی مشاورتی ادارہ قرار دیا گیا اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کو ان کے ایس ایم ای کے ترقیاتی ایجنڈوں کو حل کرنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے ایک ذریعہ بھی قرار دیا گیا۔
یہ اندازہ لگانا کہ سمیڈا نے اپنے ایجنڈے پر کتنا عمل کیا ہے، پاکستان میں ایس ایم ایز کی ترقی اور سمیڈا کی طرف سے ایس ایم ایز کو فراہم کردہ سہولتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ دونوں حسابات پر حقیقتیں کم از کم مایوس کن ہیں۔ بے شمار فزیبلٹی اسٹڈیز تیار کرنا، جو بیشتر صرف وژن پر مبنی ہیں، ایس ایم ایز کی اصل ضروریات پوری نہیں کرتا۔
ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) 1967 میں قائم کیا گیا تھا جو حکومت کی مخصوص ہدایات کے تحت زرعی اور صارفی اشیاء کی برآمد اور ضروری اشیاء کی درآمد کے لئے ایک پبلک سیکٹر ٹریڈ ہاؤس کے طور پر کام کرتا تھا۔ تاہم جنوری 1995 میں وفاقی کابینہ نے اجناس کی برآمدات اور درآمدات کا نیا کردار تفویض کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹی سی پی کے زیادہ تر کام خاص طورپر زراعت اور صارفین کی اشیا سے متعلق نجی شعبے کو تجارت کے لیے منتقل کر دیے گئے ہیں۔
پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن لمیٹڈ (پی ایس ایکس: پی این ایس سی) نے مالی سال 2024 کی پہلی ششماہی میں اپنے منافع میں سالانہ بنیادوں پر 20.81 فیصد کمی کا سامنا کیا اور بعد از ٹیکس منافع 9.49 ارب روپے [ای پی ایس: 71.86 روپے] رہا جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں اس کا منافع 11.98 ارب روپے تھا۔
سال 2007 میں 8 ارب ڈالر سے زیادہ کی بلند ترین سطح کو چھونے کے بعد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں کمی آ رہی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مالی سال 2021 میں مجموعی غیر ملکی سرمایہ کاری 4.58 ارب ڈالر سے کم ہو کر مالی سال 22 میں 1.86 ارب ڈالر رہ گئی جو مالی سال 2023 میں کم ہو کر صرف 60 کروڑ 10 لاکھ ڈالر رہ گئی۔ اس سے بورڈ آف انویسٹمنٹ آف پاکستان (بی او آئی) کے کردار اور اس کے مؤثر ہونے پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
عالمی سطح پر طویل عرصے سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ حکومت کا کام کاروبارکرنا نہیں ہے۔ جن ممالک نے یہ بات سمجھ لی ہے وہ خوشحال ہو رہے ہیں۔ ہمارا ایک ہمسایہ ملک بھارت اس کی ایک مثال ہے۔ اس میں جو بات شامل کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت کا کام اپنے کاروبار کا سہولت کار بننا نہیں ہے۔