مالی سال کے صرف دو ماہ بعد حکومت نے نیشنل ہائی ویز اتھارٹی (این ایچ اے) کے لیے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) 2024-25 کے لیے مختص رقم کو 180.284 ارب روپے سے کم کر کے 161.264 ارب روپے یعنی تقریبا 12 فیصد کم کردیا جس سے منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ اور لاگت میں اضافے کا خدشہ ہے
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ جاری اسکیموں کیلئے مختص رقم 167.8 ارب روپے سے کم کرکے 149.280 ارب روپے کردی گئی ہے جب کہ نئی اسکیموں کے لئے مختص رقم 12.484 ارب روپے سے کم کرکے 11.984 ارب روپے کردی گئی ہے۔
حکومت نے بلڈ آپریٹ ٹرانسفر (بی او ٹی) کی بنیاد پر حیدرآباد سکھر (306 کلومیٹر)، 6 لین تقسیم شدہ، باڑ والی موٹر وے کی تعمیر کے لئے صرف 50 ملین روپے مختص کیے ہیں۔
پشاور-کراچی موٹروے (پی کے ایم) کی تکمیل کے لیے اس اہم حصے کی لاگت، جو ابھی تک عمل درآمد کے مرحلے میں نہیں آیا، ابتدائی تخمینے کے 308 ارب روپے سے بڑھ کر 33 فیصد اضافے کے ساتھ 410 ارب روپے سے زائد ہو گئی ہے۔ حکومت نے پہلے پی ایس ڈی پی 2024-25 کے تحت این ایچ اے کے لیے 104 منصوبوں کے لیے 180.284 ارب روپے مختص کیے تھے، جو مالی سال 2023-24 کے لیے مختص 156 ارب روپے سے تقریباً 16 فیصد زیادہ تھے۔
سرکاری ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ حکومت نے ابتدائی طور پر پی ایس ڈی پی 2024-25 کے تحت جاری اور نئے منصوبوں کے لیے این ایچ اے کو 92 ارب روپے کی عارضی بجٹ حدود (آئی بی سی) سے آگاہ کیا تھا۔ تاہم، این ایچ اے نے تقریباً 100 جاری اور نئے منصوبوں کے لیے 628 ارب روپے کا مطالبہ کیا۔
سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی (اے پی سی سی) نے قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کو پی ایس ڈی پی 2024-25 کے تحت این ایچ اے کے لئے 104 منصوبوں کے لئے 180.284 ارب روپے کی تجویز پیش کی۔ 90 جاری منصوبوں کے لئے 167.800 ارب روپے جب کہ 14 نئے منصوبوں کیلئے 12.484 ارب روپے تجویز کیے گئے تھے۔
این ایچ اے کو پی ایس ڈی پی 2024-25 کے تحت تقریبا 200 ارب روپے ملنے کی توقع تھی، تاہم اے پی سی سی نے 180.284 ارب روپے کی تجویز پیش کی۔
پی ایس ڈی پی 2024-25 ء میں حالیہ کٹوتی کے ساتھ این ایچ اے کی لاگت میں مزید اضافے کی توقع ہے جو اصل مطالبات کے برعکس ناکافی بجٹ مختص کرنے کے نتیجے میں پہلے ہی 2.226 ٹریلین روپے تک جمع ہوچکا ہے۔
وفاقی وزیر برائے مواصلات علیم خان نے گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کو بتایا تھا کہ کم رقم مختص کرنے کے نتیجے میں ادارے کے لیے قرضوں کے ڈھیر کی شکل میں بہت بڑا بیک لاگ جمع ہورہا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اس شعبے کے لیے مختص فنڈز کم ہیں جس کی وجہ سے منصوبے بروقت مکمل نہیں ہو پاتے جس کے نتیجے میں ملک کو نقصان ہوتا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024