سوشل میڈیا کی ذہنی قیمت

28 اگست 2024

جب مذاق ایک حقیقت بن جاتا ہے - نشے کے علاج کیلئے کلینک میں بیٹھے ایک شخص پر کارٹون۔ ڈاکٹر اس سے پوچھ رہا ہے کہ وہ شراب یا منشیات کا عادی کیا ہے؟ اس نے جواب دیا، واٹس ایپ۔ یہ سنجیدہ معاملہ ہے۔ یہ اب ایک میم نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی سوشل میڈیا پر گزر رہی ہے۔

دوسروں کی پیروی کریں یا پھر ایسا بننے کی کوشش کریں کہ دوسرا آپ کی پیروی کرنے لگے۔ یہ ایک کھیل کے طور پر شروع ہوسکتا ہے لیکن جلد ہی زندگی پر غالب آجانے والا پیشہ بن جاتا ہے۔ شروع میں یہ سب کچھ صرف فیس بک کی شکل میں تھا۔

اب اس حوالے سے بہت سے دوسرے پلیٹ فارمز بھی ہیں۔ ٹک ٹاک، واٹس ایپ، یوٹیوب اور انسٹاگرام جو اب روزگار حاصل کرنے کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔

ان فورمز کی غیر منظم، بے قابو، اور بے انتہا نوعیت انہیں عام ذہنوں کے لیے خطرناک بناتی ہے اور ان کے غیر مصدقہ اور غیر تصدیق شدہ مواد کی وجہ سے یہ خاص طور پر نوجوان ذہنوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔

ایسا کیوں ہے کہ ٹی وی کے برعکس ہمارے ہاتھ میں موجود یہ چھوٹی اسکرین ناقابل بندش ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کسی بھی دوسری لت کی طرح ایک نشہ فراہم کرتی ہے۔ نشہ آور چیزیں جیسے کیمیکل ڈوپامائن پیدا کرتی ہیں، اسی طرح سوشل میڈیا بھی کرتا ہے۔

سوشل میڈیا کی نشہ آور فطرت دماغ کے ریوارڈ پوائنٹ کو متحرک کرتی ہے اور ڈوپامائن خارج کرتی ہے۔ جب ہم کچھ پوسٹ کرتے ہیں اور وہ وائرل ہو جاتی ہے، تو ہمیں ایک سرور حاصل ہوتا ہے۔ یہ ”خوشی دینے والا کیمیکل“ ہے جو خوشگوار سرگرمیوں سے جڑا ہوا ہے۔

جب ہم کچھ پوسٹ کرتے ہیں تو ہمارے دوست اور خاندان اسے ”پسند“ کرسکتے ہیں جس سے ڈوپامائن کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

تاہم جب ہمارے مواد کو پسند نہیں کیا جاتا تو اس سے ہمارے موزوں ہونے کی حالت متاثر ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ اس میں ایک طرح اطمینان حاصل کرنے کیلئے چیزوں کے استعمال کی کئی خصوصیات پائی جاتی ہیں، جیسے کہ ایک طرح کی تسکین کو پانے کے لیے زیادہ سے زیادہ استعمال، واپسی کے اثرات وغیرہ۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ والدین اور خاندان اسے صرف ایک اور گیم کھیلنے کے دور کے طور پر نہ لیں جو وقت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ ہمارے ذہنی سکون کے کچھ انتہائی اہم حصوں پر اس کا اثر ہماری توقعات سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔

1- خودیت، یعنی توجہ مرکوز کرنا— کسی فرد کے لیے سب سے بدترین بات یہ ہے کہ وہ خود غرض بن جائے۔ یہ اس کے اپنے مسائل کے بارے میں حد سے زیادہ سوچنے کی ایک غیر معمولی مثال ہے۔

آپ کیسے نظر آتے ہیں؟ آپ دوسروں سے کیسے موازنہ کرتے ہیں؟ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ وہ آپ کو کیسا محسوس کرواتے ہیں؟ آپ یہ کیوں حاصل نہیں کر سکے؟ ان سوالات کی فہرست جو ہو سکتا تھا مگر نہ ہو سکا، نہ ختم ہونے والی ہے اور تکلیف دہ بھی۔

سوشل میڈیا کے دور کی سب سے نمایاں اختراع ”سیلفی“ رہی ہے۔ روزانہ 92 ملین سیلفیاں لی جاتی ہیں۔ یہ تعداد بہت بڑی ہے۔ یہ ایک پرانی حقیقت کی تصدیق کرتی ہے کہ ہر فرد کے لیے سب سے دلچسپ موضوع خود وہی ہے۔

جب کوئی فوٹو سیشن کرتے ہوئے فلٹرز لگاتا ہے تو تصویر واقعی بہت خوبصورت لگتی ہے، لیکن یہ عارضی ہے۔ اگر کسی خاص تصویر کو بہت سے لائکس ملتے ہیں تو ڈوپامائن سے ملنے والی خوشی عارضی ہوتی ہے اور اس سے مزید بے چینی پیدا ہو سکتی ہے کہ تصویر اصل حقیقت کے مقابلے کی نہیں ہے۔ خود پر توجہ مرکوز کرنے کے دو بنیادی مسائل ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ جب کسی مسئلے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے تو وہ بڑھتا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بیرونی دنیا سے مختلف لوگوں کے ساتھ جڑنے کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے۔ یہ بات خاص طور پر نوجوانوں سے متعلق سچ ہے۔

کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو افراد ہفتے میں کم از کم 58 بار کسی بھی سوشل میڈیا سائٹ پر جاتے ہیں، ان کے سماجی طور پر الگ تھلگ اور ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے امکانات ان لوگوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوتے ہیں جو ہفتے میں 9 بار سے کم سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ یہ تعلقات کے انتظام کے لیے تباہ کن ہے۔

ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کا دارومدار صرف واٹس ایپ پر بات چیت کرنے کے بجائے، باقاعدہ آمنے سامنے ملاقاتوں پر ہے۔ ایسے لوگ پھر سماجی طور پر غیر ہم آہنگ بن جاتے ہیں۔

2- قید اور غلامی— بدحالی کا سب سے بڑا نسخہ یہ ہے کہ آپ دوسروں کو اپنے جذبات پر قابو پانے دیں۔ جس لمحے آپ اپنی خوشی کا ریموٹ کنٹرول کسی اور کے حوالے کر دیتے ہیں، آپ ان کی رائے کے قیدی بن جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا یہی کرتا ہے۔

بہت سے لوگوں کے نشیب و فراز دوسروں کے لائکس اور تبصروں پر منحصر ہوتے ہیں۔ جب لوگ خوشگوار تبصرے کرتے ہیں تو وہ خوشی محسوس کرتے ہیں اور جب تبصرے بدتمیزی کی حد تک چلے جاتے ہیں تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہ انحصار واقعی غلامی جیسا ہے۔

سوشل میڈیا کے دور کی مشہور شخصیات اس وقت چھپ جاتی ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ لوگ ان کی پوسٹس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ کچھ ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جبکہ کئی لوگوں کا مزاج تلخ ہو جاتا ہے۔ آپ بنیادی طور پر اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کے قابل نہیں رہتے۔

دوسروں کی ظاہری شکل اور رویے کے ساتھ مستقل موازنہ آپ کی خود اعتمادی کو متاثر کرتا ہے۔ انسٹاگرام کی شہرت دلکش ہوتی ہے اور اس سے بچنا مشکل ہے۔

وائرل ہونے والی ریلز آپ کے ذہن اور دل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ مصنوعی فلٹرز اور نقش و نگاری ایک ایسی تصاویر بناتے ہیں جو بہت پرکشش نظر آتی ہے لیکن یہ تاثر پذیر نوجوان ذہنوں کے اعتماد کو واقعی متاثر کر سکتی ہے۔

پِٹسبرگ یونیورسٹی کی ایک تحقیق نے سوشل میڈیا ایپس پر اسکرولنگ کرنے میں گزارے گئے وقت اور منفی باڈی امیج کے تاثرات کے درمیان تعلق کو ظاہر کیا۔

جن لوگوں نے سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارا تھا، ان کے باڈی امیج اور کھانے کی عادات کے بارے میں پریشانیوں کی شکایت کرنے کا امکان ان لوگوں کے مقابلے میں 2.2 گنا زیادہ تھا جنہوں نے سوشل میڈیا پر کم وقت گزارا۔ یہ حتمی جذباتی غلامی ہے۔

ذرا تصور کریں کہ آپ کی خوشی ان لوگوں کے تبصروں/آراء پر منحصر ہے جن سے آپ کبھی نہیں ملے اور شاید کبھی ملیں گے بھی نہیں۔ تصور کریں کہ آپ اس وقت مایوس ہو جاتے ہیں جب آپ کی اپنی تصویر کم تر نظر آتی ہے۔

ذرا تصور کریں کہ آپ اپنے ہاتھ میں موجود ایک مشین کے ساتھ نسبتا کسی شخص سے مصافحہ کرنے سے زیادہ آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔ یہ بالکل معمول کی بات نہیں ہے اور غیر معمولی نتائج کی طرف لے جائے گی۔

3- اندرونی کشمکش— سوشل میڈیا کا مقصد سماجی روابط اور جڑنے کو بڑھانا ہے، لیکن یہ انسانی روابط کو کم بھی کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا مواد پر اس حد تک توجہ مرکوز کرنے سے اندرونی بے اطمینانی پیدا ہو گئی ہے۔ انسان سماجی حیوان ہے اور اپنی تکمیل کے لیے انہیں دوسروں کی جسمانی قربت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیغامات، وائس نوٹس، کالز، اور تصاویر رابطے میں رہنے کے لیے بہترین ہیں، لیکن یہ کبھی بھی انسانی لمس کی جگہ نہیں لے سکتے۔

ٹائم لائنز پر مستقل فِیڈ، جو لوگوں کو بےاختیار اسکرول کرنے پر مجبور کرتی ہے، نے ”فومو“ یعنی ”چھوٹ جانے کے خوف“ کا ایک منفی ماحول پیدا کر دیا ہے۔ سونے سے پہلے مسلسل فون دیکھنے کی خواہش، گاڑی چلاتے ہوئے ایک نظر جھانکنے کی کوشش، وغیرہ، نے نیند کے مسائل، حادثات اور بے چینی میں اضافہ کیا ہے۔

سائبر بُلنگ ایک حقیقت ہے جو اب ہراسانی سے بھی آگے بڑھ چکی ہے۔ اس گرمیوں میں تقریباً ہر وہ شخص جس نے کہیں کا سفر کیا ہے، نے اپنی سیر کے البمز میں نہ ختم ہونے والی پوسٹس کی ہیں۔ اچھے ارادے کے ساتھ پوسٹ کی گئی یہ تصاویر اُن لوگوں میں اداسی اور محرومی کا احساس پیدا کر سکتی ہیں جو کہیں نہیں جا سکے۔

جو چیز آپ کو انحصار کرنے کا عادی اور غیر فعال بناتی ہے اس پر قدغن ضروری ہے۔ اسمارٹ فون کے دور میں پیدا ہونے والے بچوں کی پرورش مشکل ہوتی ہے۔ والدین کو اسمارٹ فون کے وقت اور مقام کی سخت نگرانی کرنی چاہیے۔ بچوں کو متبادل جسمانی سرگرمیاں اور تفریحات فراہم کرنا والدین کے لیے ایک چیلنج ہے۔

اس طرح والدین کے رویے میں تبدیلی بچوں کے رویے میں تبدیلی کا باعث بنے گی۔ بالغوں کے لئے بھی ایسا ہی ہے. یونیورسٹی آف پنسلوانیا کی 2018 کی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کو دن میں 30 منٹ تک کم کرنے کے نتیجے میں اضطراب ، افسردگی ، تنہائی ، نیند کے مسائل اور فومو کی سطح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اصول موجود ہے- اپنے گیجٹ کو کنٹرول کرنے سے پہلے اسے کنٹرول کریں۔

Read Comments