اگرچہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے کافی حدتک ہوا نکل چکی ہے لیکن پاکستان اور چین کی جانب سے اس پر وقتاً فوقتاً ظاہر کیے گئےغیر متزلزل مثبت رویے اس میگا انفراسٹرکچر منصوبے کو ایک نامکمل ایجنڈا آئٹم کے طور پر مضبوطی سے برقرار رکھتی ہے۔
اگست 2023 میں سی پیک کے دس سال مکمل ہونے کی تقریبات کے موقع پر چینی نائب وزیر اعظم نے تین روزہ دورے پر پاکستان کا دورہ کیا اور صدر شی جن پنگ کا پیغام پہنچایا جس کے ذریعے انہوں نے اس سنگ میل کی کامیابی پر پاکستان کو مبارکباد دی اور چین کے ساتھ مختلف محاذوں پر تعاون بڑھانے کی ترغیب دی۔ چینی صدر نے سی پیک کے لیے پانچ نئے راہداریوں کی تجویز دی جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ: ترقی، روزگار، جدت، سبز توانائی اور علاقائی رابطے ہیں۔
ایک سال بعد، منگل کے روز وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے تمام ورکنگ گروپس کو ہدایت دی کہ وہ پچھلے سال اگست میں چینی صدر شی جن پنگ کی جانب سے تجویز کردہ پانچ نئے راہداریوں بشمول ترقی، روزگار، جدت، سبز توانائی اور سی پیک فیز-II کے لیے علاقائی رابطے پر تصوراتی دستاویزات تیار کریں۔ وزیر نے وضاحت کی کہ اگلے ماہ کئی مشترکہ ورکنگ گروپس کے اجلاس منعقد کیے جائیں گے اور متعلقہ وزارتوں کو ہدایت دی کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے دوسرے مرحلے کے تحت آئندہ پانچ سال کے لیے تصوراتی دستاویزات تیار کریں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین نے سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت پانچ اقتصادی راہداریوں پر جلد از جلد کام شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
لیکن یہ حقیقت کہ اگست 2023 میں سی پیک فیز-2 کے اعلان کے ایک سال بعد یہ مرحلہ ابھی صرف تصوراتی دستاویزات تیار کرنے کے آغاز پر ہی ہے۔ اس طریقہ کار سے واضح ہوتا ہے کہ فیز-2 جلد عملی شکل اختیار نہیں کر رہا۔ اس میں جوش و خروش اور فوری عملدرآمد کی کمی ہے۔
سی پیک ایک دہائی قبل بڑی امیدوں کے ساتھ بڑے منصوبوں کے آغاز کے تحت شروع ہوا تھا۔ 21 اپریل 2015 کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی افتتاحی تقریب کے موقع پر صدر شی نے پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی نوعیت کو ایک چینی کہاوت کے ساتھ بیان کیا، ’’تیز ہوا گھاس کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، اور اصلی سونا آگ کے امتحان میں پورا اترتا ہے۔
سی پیک کی پہلی دہائی جسے فیز-1 کہا جاتا ہے، میں چین نے توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں نمایاں طور پر تقریباً 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ توانائی کے شعبے میں، 14 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اور 2 زیر تعمیر ہیں، جن کے ذریعے قومی گرڈ میں مجموعی طور پر 7280 میگاواٹ بجلی شامل کی گئی ہے، جبکہ 4428 میگاواٹ اضافی بجلی کی آمد کا عمل جاری ہے۔ انفراسٹرکچر کے شعبے میں صوبوں کے درمیان 1656 کلومیٹر کے روڈ نیٹ ورک کے ساتھ کل 6 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں، جبکہ 4244.6 کلومیٹر کے روڈ نیٹ ورک کے مزید 18 منصوبے زیر عمل بتائے جاتے ہیں۔
سی پیک کا گوہرِ نایاب گوادر ہے، جہاں گوادر بندرگاہ کی ترقی کے لیے کل 14 منصوبوں میں سے 4 بڑے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں، جن میں گوادر پورٹ اور فری زون، گوادر اسمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان، پاک چین ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ گوادر، پاک چین فرینڈشپ اسپتال، اور گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے شامل ہیں۔ گوادر ایئرپورٹ بھی جلد مکمل طور پر فعال ہونے والا ہے۔
چین کی ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘ کے تحت گوادر بندرگاہ اور اس کی چین کے ساتھ رابطہ کاری کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔ اس ہدف کو چین نے حاصل کر لیا ہے اور اس حوالے سے وہ مطمئن نظر آتا ہے۔ اس کے بدلے میں چین نے سی پیک کے تحت پاکستان کو توانائی، انفراسٹرکچر، صنعت، ٹیکنالوجی اور کاروبار کے شعبوں میں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کی پیشکش کی۔ یہ حصہ پاکستان کے لیے زیادہ سودمند ثابت نہیں ہوا۔
سی پیک کو طویل عرصے تک پاکستان کی معیشت کے لیے گیم چینجر کے طور پر تصور کیا جاتا رہا اور یہ سچ ثابت ہو سکتا تھا اگر پاکستان کی قیادت نے ذمہ داری سے کام لیا ہوتا اور قومی مفادات کے تحت درست فیصلے کیے ہوتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور سی پیک کا خواب تلخ حقیقت بن گیا۔
اس وقت کی قیادت نے انفراسٹرکچر اور توانائی کے شعبوں میں مہنگے اور غیر ضروری غیر پائیدار میگا منصوبوں کو بے دریغ شروع کیا، بغیر اس بات کو مدنظر رکھے کہ طلب کا پہلو، نظام میں موجود خلا، اور ملک کی کمزور معیشت کس حالت میں ہے۔
آخرکار، بجلی کی نصب شدہ صلاحیت کو 42,000 میگاواٹ تک بڑھا دیا گیا جبکہ انتہائی طلب بھی اس پیدوار کا نصف نکلی۔ اور یہی بات بجلی کی ترسیلی نیٹ ورک کی صلاحیت کے حوالے سے بھی درست ثابت ہوئی۔ اس سرمایہ کاری سے پیدا ہونے والی آمدنی چینی قرضے کی ادائیگی کے لیے ناکافی تھی، جبکہ قرضوں کے بوجھ نے ریاست کی مالیاتی پائیداری کو متاثر کیا۔
حقیقت میں جو اب سی پیک کا دوسرا مرحلہ ہے، اسے ہی پہلے مرحلے کے طور پر شروع کیا جانا چاہیے تھا۔ اس سے قوم کو تیز صنعتی ترقی، جدت اور روزگار کے مواقع ملتے، علاقائی طاقتوں کو سی پیک کے ساتھ منسلک ہونے کا موقع ملتا اور اس کے نتیجے میں آمدنی میں اضافہ ہوتا، جس سے قوم کو میگا منصوبوں کی پیداوار اور سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے اور انہیں جذب کرنے کے قابل بنایا جاتا۔ سی پیک کے تحت مجوزہ خصوصی اقتصادی زونز ( (ای پی زیڈ) اگرچہ مختص کیے گئے ہیں، لیکن وہ اب بھی بڑی حد تک غیر آباد ہیں۔ آج قوم سست صنعتی ترقی، توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں سی پیک کے تحت کی گئی سرمایہ کاری پر بھاری قرض کے ساتھ کھڑی ہے، جو کہ زیادہ تر غیر استعمال شدہ ہیں۔
سی پیک کو دوبارہ پٹڑی پر لانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ سیکیورٹی کا مسئلہ، جو چینیوں کو سب سے زیادہ پریشان کرتا ہے، سب سے بڑا چیلنج ہے، اس کے بعد پاکستان میں منصوبوں میں مصروف چینی ٹھیکیداروں کے واجبات کی ادائیگی کا مسئلہ آتا ہے۔
سی پیک بلاشبہ چین اور پاکستان دونوں کے بہترین مفاد میں ہے۔ ان دونوں ممالک کو ملنے والے دوطرفہ فوائد کے علاوہ، یہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی بڑے فوائد کا حامل ہے۔ یہ چین، روس، ایران، پاکستان، ترکی اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان رابطہ فراہم کرتا ہے۔ سی پیک پاکستان کے لیے ایک اہم ستون ثابت ہو سکتا ہے۔ سی پیک کے نامکمل ایجنڈے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔