’مون سون دلہنیں‘: سخت موسم پاکستان میں کم عمری کی شادیوں میں اضافے کا سبب

16 اگست 2024

پاکستان میں مون سون کی بارشوں کے آغاز کے وقت 14 سالہ شمیلہ اور اس کی 13 سالہ بہن آمنہ کی شادی پیسوں کے عوض کر دی گئی۔

شمیلہ نے اپنی عمر سے دگنی عمر کے ایک شخص سے شادی کے بعد اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ میں شادی کررہی ہوں، میں نے سوچا تھا کہ میری زندگی آسان ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ شادی کے بعد بھی میری حالت نہیں بدلی اور اگر بارش ہوئی تو مجھے ڈر ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ اور بھی کم ہوجائے گا۔

پاکستان میں کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی شرح حالیہ برسوں میں کم ہوتی جا رہی ہے لیکن 2022 میں غیر معمولی سیلاب کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ آب و ہوا کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی عدم تحفظ کی وجہ سے اس طرح کی شادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جولائی اور ستمبر کے درمیان موسم گرما کا مون سون لاکھوں کسانوں کے ذریعہ معاش اور غذائی تحفظ کے لئے اہم ہے لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی مون سون کو سخت اور طویل بنا رہی ہے جس سے لینڈ سلائیڈنگ ، سیلاب اور طویل مدتی فصلوں کے نقصان کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

سندھ کی زرعی پٹی کے بہت سے دیہات 2022 کے اس سیلاب سے تاحال نہ نکل سکے ، جس سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آگیا تھا اور لاکھوں بے گھر ہوئے جبکہ فصلیں بھی تباہ ہوئیں۔

این جی او سجاگ سنسر کے بانی مشوک برہمنی نے کہاکہ اس سے ’مون سون دلہنوں‘ کا ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ سجاگ کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے مذہبی اسکالرز کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خاندانوں کو اپنی بقا کیلئے کوئی بھی ذریعہ مل جائے گا، پہلا اور سب سے واضح طریقہ یہ ہے کہ پیسوں کے بدلے میں اپنی بیٹیوں کی شادی کرادی جائے۔

برہمنی نے کہا کہ 2022 کے سیلاب کے بعد سے ضلع دادو کے دیہاتوں میں کم عمری کی شادیوں میں اضافہ ہوا ہے، جو سیلاب کے سبب زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے جو مہینوں جھیل کا منظر پیش کرتا رہا۔

خان محمد ملاح گاؤں میں، جہاں شمیلہ اور آمنہ کی جون میں ایک مشترکہ تقریب میں شادی ہوئی تھی، گزشتہ مون سون سے اب تک 45 کم عمر لڑکیاں پیا گھر سدھار چکی ہیں– ان میں سے 15 شادیاں اس سال مئی اور جون میں ہوئی تھیں۔

گاؤں کی 65 سالہ معمر خاتون مائی ہجانی نے کہا کہ 2022 کی بارش سے پہلے ہمارے علاقے میں اتنی کم عمر لڑکیوں کی شادی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

انہوں نے کہاکہ بارشوں سے پہلے وہ زمینوں پر کام کرتے تھیں، لکڑی کے بستروں کے لیے رسیاں بناتی تھیں، مرد مچھلی پکڑنے اور کھیتی کرنے میں مصروف رہتے تھے اور ان کے پاس ہر وقت کام ہوتا تھا۔

والدین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو غربت سے بچانے کے لیے عجلت میں شادی کرادی۔

شمیلہ کی ساس بی بی سچل نے بتایا کہ انہوں نے نوجوان دلہن کے والدین کو 2 لاکھ روپے (720 ڈالر) دیے جو اس علاقے میں ایک بڑی رقم ہے جہاں زیادہ تر خاندان روزانہ تقریبا ایک ڈالر پر گزر بسر کرتے ہیں۔

’میں نے سوچا مجھے لپ اسٹک ملے گی‘

نجمہ علی اپنی شادی سے قبل امنگوں کے بہاؤ میں بہہ گئی تھیں، انہوں نے 2022 میں 14 سال کی عمر میں شادی کی اور پاکستان کی روایت کے مطابق اپنے سسرال والوں کے ساتھ رہنے لگیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے شوہر نے میری شادی کے لیے میرے والدین کو ڈھائی لاکھ روپے دیے تھے۔ انہوں نے یہ رقم قرض (کسی تیسرے فریق سے) لیکر دی تھی اور اب ان کے پاس واپس کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ میں نے سوچا تھا کہ مجھے لپ اسٹک، میک اپ، کپڑے اور کروکری ملے گی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب میں شوہر اور ایک بچے کے ساتھ والدین کے گھر واپس آ گئی ہوں کیوں کہ ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

ان کا گاؤں، جو مین نارا وادی میں ایک نہر کے کنارے واقع ہے، بنجر ہے اور آلودہ پانی میں کوئی مچھلی نہیں بچی ہے – اس آلودہ پانی کی بدبو نے علاقے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

گاؤں کی منتظمہ اور نجمہ کی ماں 58 سالہ حکیم زادی نے کہا کہ ہمارے پاس چاول کے سرسبز کھیت تھے جہاں لڑکیاں کام کرتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے لڑکیاں ہم پر بوجھ نہیں تھیں، جس عمر میں لڑکیوں کی شادی ہوتی تھی، اب ان کے پانچ بچے ہیں، اور وہ اپنے والدین کے ساتھ رہنے کے لیے واپس آ جاتی ہیں کیوں کہ ان کے شوہر بے روزگار ہیں۔

’میں تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں‘

دسمبر میں شائع ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے کچھ حصوں میں کم عمری کی شادیاں عام ہیں اور یہ عالمی سطح پر 18 سال کی عمر سے لڑکیوں کی شادی کے حوالے سے چھٹے نمبر پر ہے۔

مختلف علاقوں میں شادی کی قانونی عمر 16 سے 18 سال کے درمیان ہوتی ہے لیکن اس قانون کو شاذ و نادر ہی نافذ کیا جاتا ہے۔

یونیسیف نے کم عمری کی شادی کو کم کرنے میں ”نمایاں پیش رفت“ کی اطلاع دی ہے لیکن شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ شدید موسمی واقعات لڑکیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

2022 کے سیلاب کے بعد ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم کم عمری کی شادیوں کے پھیلاؤ میں 18 فیصد اضافے کی توقع کریں گے جو پانچ سال کی پیش رفت کو مٹانے کے برابر ہے۔

31 سالہ دلدار علی شیخ نے سیلاب سے بے گھر ہونے کے بعد امدادی کیمپ میں رہتے ہوئے اپنی سب سے بڑی بیٹی مہتاب کی شادی کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب میں وہاں تھا تو میں نے خود سوچا کہ ہمیں اپنی بیٹی کی شادی کرنی چاہیے تاکہ کم از کم وہ کھانا کھا سکے اور بنیادی سہولیات حاصل کر سکے۔

مہتاب کی عمر صرف 10 سال تھی۔

ان کی والدہ سنبل علی شیخ کا کہنا تھا کہ جس رات میں نے ان کی شادی کرنے کا فیصلہ کیا میں سو نہیں سکی۔

این جی او سجاگ سنسر کی مداخلت کی وجہ سے شادی ملتوی کردی گئی اور مہتاب کو ایک سلائی سینٹر میں داخل کرایا گیا جس سے وہ اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے تھوڑی سی آمدنی حاصل کر سکتی تھیں۔

لیکن جب مون سون کی بارش ہوتی ہے تو ان پر خوف طاری ہوجاتا ہے کہ ان کی طے شدہ شادی ہونے والی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد سے کہا ہے کہ میں تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں، میں اپنے آس پاس شادی شدہ لڑکیوں کو دیکھتی ہوں جن کی زندگی بہت مشکل ہے اور میں اپنے لئے یہ نہیں چاہتی۔

Read Comments