ملک میں انٹرنیٹ سروسز سست روی کی وجہ سے اربوں کے نقصانات کے خدشے کے پیش نظر وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کو کوئی وجہ بتانے میں ناکام رہی۔
سینیٹر پلواشہ محمد زئی خان کی صدارت میں جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کا اجلاس ہوا جس میں ملک بھر میں حالیہ انٹرنیٹ میں خلل کے مسئلے پر روشنی ڈالی گئی، جس کی وجہ سے ای کامرس کے کاروبار چلانے والے افراد کو حقیقی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ ملک پہلے ہی شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے اور اگر انٹرنیٹ کے مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو ملک 3 ارب ڈالر کی آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات سے محروم ہو سکتا ہے۔
کمیٹی کے اراکین بشمول سینیٹر افنان اللہ اور سینیٹر ہمایوں نے کم انٹرنیٹ اسپیڈ کی وجہ سے پاکستان سے متعدد ای کامرس پلیٹ فارمز کے بند ہونے کی شکایت کی۔ سینیٹر افنان اللہ خان نے مزید کہا کہ صارفین واٹس ایپ پر میڈیا فائلیں اپ لوڈ یا ڈاؤن لوڈ کرنے سے قاصر ہیں۔ ”آپ لوگوں نے کاروباری سرگرمیوں کو برباد کر دیا ہے،“ سینیٹر ہمایوں نے پی ٹی اے اور آئی ٹی کی وزارت کے عہدیداروں سے کہا جو اجلاس میں شریک تھے۔
ایڈیشنل سیکرٹری آئی ٹی عائشہ حمیرہ نے کہا کہ انٹرنیٹ سروسز کا مسئلہ سیلولر نیٹ ورکس سے متعلق ہے نہ کہ وائی فائی سروسز سے، جبکہ پی ٹی اے کے عہدیدار نے کہا کہ انہیں ملک میں سست انٹرنیٹ اسپیڈ کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ براڈ بینڈ کنکشنز میں کوئی مسئلہ نہیں ہے؛ تاہم موبائل ڈیٹا استعمال کرنے والے موبائل آپریٹرز کو رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ پی ٹی اے اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے اور وزارت جائزہ مکمل ہونے کے بعد دو ہفتوں میں ایک جائزہ رپورٹ پیش کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوگی۔
مزید برآں، کمیٹی نے ایم این اے علی جان مزاری کی جانب سے کشمور میں خراب انٹرنیٹ سروس کی شکایت پر بھی بات چیت کی۔ مزاری نے کہا کہ گزشتہ چار ماہ سے انٹرنیٹ سروسز نہایت سست ہو چکی ہیں اور متعدد درخواستوں کے باوجود اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
پی ٹی اے کے عہدیداروں نے بتایا کہ علاقے میں تین بڑے سروس پرووائیڈرز کی تقریباً 156 سائٹس ہیں اور بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے زیادہ تر انٹرنیٹ سروسز بند ہیں۔ تاہم پی ٹی اے اس مسئلے کا جائزہ لے رہی ہے اور آئندہ 15 دنوں میں اپنی رپورٹ جمع کرائے گی۔ کمیٹی نے پی ٹی اے کو اگلے اجلاس میں اپنی سہ ماہی سروے رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔
سینیٹر افنان اللہ نے پرائیویٹ سیکٹر سے ایک سیکرٹری آئی ٹی کی تقرری کے معاملے کو بھی اٹھایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ افواہیں ہیں کہ سیکرٹری کی تقرری دو سال کی مدت کے لیے کی جائے گی جس کی تنخواہ تقریباً 20 لاکھ روپے ہوگی۔
وزیر مملکت برائے آئی ٹی شیزا فاطمہ خواجہ نے کہا کہ اس تجویز کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے آگے بڑھایا ہے اور وزارت اگلے ہفتے اس معاملے پر کمیٹی کو بریف کرے گی۔
کمیٹی نے ”ذاتی ڈیٹا کے تحفظ کا بل 2023“ کے بل پر بھی غور کیا۔ بل کے محرک سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ اس بل کا بنیادی مقصد شہریوں کے ڈیٹا کا تحفظ کرنا ہے کیونکہ اس وقت اس مقصد کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے حکام نے بتایا کہ وزارت نے 100 سے زائد مقامی اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی ہے اور اسٹیک ہولڈرز کی شکایات کو دور کرنے کے لیے ایک حتمی مسودے پر کام کر رہی ہے۔ مسودہ اگلے 15 دنوں میں مکمل کر لیا جائے گا۔ کمیٹی نے ملک کے لیے بل کی اہمیت کے پیش نظر سفارش کی کہ وزارت جلد از جلد مسودہ مکمل کرے۔
مزید برآں، کمیٹی کو ورچوئل یونیورسٹی کی کارکردگی اور آپریشنز کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ ورچوئل یونیورسٹی کے ریکٹر ارشد سلیم بھٹی نے بتایا کہ ورچوئل یونیورسٹی ملک کی پہلی یونیورسٹی تھی جس نے 2002 میں فلیپڈ کلاس روم ماڈل شروع کیا جس کا مقصد کام کرنے والے طلباء کو فائدہ پہنچانا تھا۔
ورچوئل یونیورسٹی واحد یونیورسٹی ہے جو معیاری تعلیم کم قیمت پر فراہم کرتی ہے، پورے بی ایس پروگرام کے لیے صرف 1,50,000 روپے وصول کرتی ہے اور 400 کورسز مفت فراہم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی فیسوں اور خدمات سے 7.25 ارب روپے کی آمدنی حاصل کرتی ہے اور خزانے پر کوئی بوجھ نہیں ڈالتی۔
لائسنسز کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن شیزا خواجہ نے کہا کہ پی ٹی اے اور لائسنس ہولڈرز کے درمیان یونیورسل سروس فنڈ کے لیے پروموشن کنٹری بیوشن تک رسائی کے تعین کے حوالے سے تنازعہ جاری ہے۔
لائسنس کی میعاد ختم ہونے سے تیس ماہ قبل، پی ٹی اے نے لائسنس ہولڈرز کو نوٹس جاری کیے کہ بقایا جات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ان کے لائسنس کی تجدید نہیں کی جائے گی۔
لائسنس ہولڈرز نے سندھ ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر حاصل کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی اے بقایا جات کی ادائیگی پر لائسنس کی تجدید کو مشروط نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی اے نے معاملہ پاکستان کے اٹارنی جنرل کے ساتھ اٹھایا ہے اور ممکنہ حل کے لیے منتظر ہے۔
ٹیلی کام سیکٹر کے ذرائع کے مطابق نیشنل سیکیورٹی فائر وال کا دوسرا ٹرائل کامیابی کے ساتھ مکمل کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فائر وال نیشنل سیکیورٹی خدشات کو حل کرنے کے لیے نصب کیا گیا ہے، جس کا مقصد متنازع مواد کو بلاک کرنا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پروپیگنڈے کو روکنا ہے۔ پاکستان بھر میں صارفین کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے واٹس ایپ اور فیس بک تک رسائی میں دشواری کا سامنا ہے اور موبائل ڈیٹا پر انٹرنیٹ سروس بھی سست ہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے شیزا خواجہ نے کہا کہ ممالک سائبر سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزارت کو انٹرنیٹ کی رفتار میں سست روی کی شکایات موصول ہوئی ہیں اور مزید کہا کہ مثالی طور پر انٹرنیٹ کی رفتار سست نہیں ہونی چاہیے۔