کساد بازاری کا شکار متوسط طبقہ

15 اگست 2024

اگلے سال 3.2 فیصد جی ڈی پی کی شرح نمو اور مالی سال 25 میں افراط زر 10 فیصد سے نیچے آنے کا اس شخص کو کیا فائدہ ہے جو اس نومبر میں بجلی کے بل کی وجہ سے دیوالیہ ہوجائے گا؟

جلد ہی، جیسے جیسے تمام نئے ٹیکس آمدن اور یوٹیلٹی بلوں میں اضافہ ہوگا، اس طرح کا جبری دیوالیہ پن فوڈ چین کو تباہ کر دے گا جس سے مقامی اور چھوٹے کاروباری قرضوں میں ایک مایوسی پیدا ہوجائے گی جو کبھی ختم نہیں ہوگی اور ادارہ جاتی غلطیوں کے بیج بوئے جائیں گے۔

کرونا وبا ختم ہونے کے بعد سے سب سے کم آمدنی والے طبقات خط غربت سے نیچے جارہے ہیں۔

تاہم کرونا کے بعد دو سالوں کی معاشی تباہی خود ساختہ تھی کیونکہ عدم اعتماد کی تحریک کی سیاست نے مضحکہ خیز، عجلت پر مبنی پالیسی فیصلوں کو جنم دیا جس نے ”دوستوں“ کے ساتھ قرض لینے / قرض دینے کے معاملات پٹری سے اتار دیے – جو بیجنگ سے ریاض تک کشکول لے جانے کے سالوں کے ثمرات تھے – اور آخر کار ای ایف ایف (توسیعی فنڈ سہولت) بھی ناکارہ کردیا گیا جس سے ملکی ڈیفالٹ کے خطرات مزید قریب ہوگئے۔

اس کے بعد آنے والے ایس بی اے (اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگروام) - جس پر وزیر اعظم کی جانب سے بغلیں بجائی گئیں- نے (فی الحال) ڈیفالٹ کے خطرات کو ٹال دیا لیکن اس نے جاب مارکیٹ کے لیے کوئی حیرت انگیز کام نہیں کیا کیونکہ اس کی شرائط نے ٹیکسوں میں اضافہ کیا، بجلی مہنگی کردی اور کمپنیوں یا دفاتر میں تیزی سے چھانٹیاں شروع ہوگئیں جس سے نچلے سے درمیانی درجے کے آمدن والے طبقیات تک دیوالیہ پن پھیل گیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ اگست میں بجلی کے بلوں میں اچانک 40 فیصد اضافے کے بعد ملک بھر میں احتجاج ہوا تھا اور نگران وزیر اطلاعات نے کہا تھا کہ انہوں نے آئی ایم ایف حکام سے رابطہ کیا تھا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ واشنگٹن میں رات بہت گہری ہوچکی تھی۔ -ایک خوفناک فلم کا ایک ٹریلر جس میں ریکارڈ افراط زر، بے روزگاری اور ٹیکسوں کو ایک بے خوف محنت کش طبقے پر اثر انداز ہوتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال وزیر اعظم کی جانب سے معمول کے مطابق یوم آزادی کے جھوٹ میں ”بجلی کی قیمتوں میں کمی“ اور ”نئے اقتصادی منصوبے“ کے بارے میں بہت جلد ”اچھی خبر“ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

اس کے باوجود وہ کاروباری افراد جو وزیر اعظم کی جانب سے اس جھانسے پر یقین کرنے پر مجبور ہوجائیں گے وہ توسیعی قرضوں کی ادائیگی پر ڈیفالٹ کرجائیں گے کیوں کہ وزیر اعظم کی جانب سے جس منصوبے کا اعلان کیا جائے گا وہ آئی ایم ایف کا منصوبہ ہوگا اور اس میں بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا اور یہ کم شدت سے نہیں ہوگا۔

بہت جلد، شاید نئے ای ایف ایف کی باضابطہ منظوری سے پہلے ہی، نئے ٹیکس ملک کے غریب ترین صارفین کے بجلی کے بلوں میں 40 سے 50 فیصد تک اضافہ کر دیں گے۔ اور یہ کس طرح کی ”اچھی خبر“ ہے؟

توانائی کی زیادہ لاگت نے پہلے ہی مقامی پیداوار کو ناقابل عمل بنا دیا ہے اور برآمدات بڑی حد تک غیر مسابقتی ہیں۔ اب زیادہ ان پٹ لاگت اور زیادہ ٹیکس سے مزید کاروبار بندش پر مجبور ہوں گی اور کاروبار میں کمی اور بے روزگاری میں اضافہ کریں گے۔ سرکاری ملازمین اور پارلیمنٹیرینز (مراعات) کے علاوہ کئی سالوں سے عام شہری کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا ہے جبکہ افراط زر اور بلوں کی ادائیگیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ غربت میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ متوسط طبقے کے گھرانے – مارکیٹوں اور معشیت کی جان– صرف زندہ رہنے کے لئے قرضوں میں ڈوبے ہوئے غلاموں کی حد تک محدود ہو گئے ہیں۔

تاہم یہ تمام طبقات کیلئے ہرگز برا نہیں ہوگا کیونکہ یہ اشرافیہ کے لئے بہت اچھا وقت ہے۔ یہ طبقہ ملک کی تاریخ کے سب سے ظالمانہ اور امتیازی ٹیکس نظام سے محفوظ ہیں اور یہ سیاست میں ان کی قربتوں کی وجہ سے۔

اشرافیہ نے اس یکطرفہ ٹیکس پالیسی کو کھلم کھلا استعمال کیا ہےاور بڑے پیمانے پر دولت کی مجرمانہ منتقلی کے لیے اس کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اب انہوں نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے اور انہیں اس کا احساس تک نہیں۔

کم آمدنی والے گروپ شدید بحران میں ہیں اور متوسط طبقہ پہلے بیروزگاری اور پیداواری سطح گرنے سے تنزلی کا شکار ہے۔ یہ غیر فطری متوازی معیشتیں انتہائی متعصبانہ معاشی پالیسیوں کا براہ راست نتیجہ ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اس ملک کے حکمران یہ بھول گئے ہیں کہ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور پہلے ہی غریب ترین اور ناخواندہ ممالک میں سے ایک ہے اور بحران میں مبتلا متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کا مطلب ہے کہ لاکھوں گھرانے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ اس طرح کے امتزاج معاشروں میں ٹوٹ پھوٹ اور بازاروں میں ”معاشی امراض“ کا سبب بنتے ہیں۔ ہماری اشرافیہ ایک ڈراؤنے خواب میں سو رہی ہے اور یہ آپ کو اس جملے کی یاد دلاتا ہے، ”ان لوگوں سے زیادہ اندھا کوئی نہیں ہے جو دیکھنے سے انکار کرتے ہیں“۔

Read Comments