مستقل مزاجی رنگ لے آئی، سیفان حسن نے میراتھن جیت لی

11 اگست 2024

پیرس گیمز میں سفان حسن کی مستقل مزاجی بلآخر اس وقت رنگ لے آئی جب وہ اتوار کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اولمپک میراتھن میں گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب ہوئیں۔

ایتھوپیا میں پیدا ہونے والی ڈچ ایتھلیٹ نے میراتھن میں 5000 میٹر اور 10000 میٹر کی دوڑ میں دو کانسی کے تمغے جیت کر تین مقابلوں میں فاتحانہ مقام پر آنے کی حیرت انگیز کوشش کی۔

صفان حسن نے ایتھوپیا کی آصفہ کو 2 گھنٹے 22 منٹ 55 سیکنڈ کے اولمپک ریکارڈ میں شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔

یہ سفان حسن کی تین سال قبل کرونا سے متاثرہ ٹوکیو اولمپکس میں کوششوں کی عکاسی کرتا ہے جب انہوں نے تین تمغے بھی جیتے تھے: جس میں 5،000 میٹر اور 10،000 میٹر کی دوڑ میں دو طلائی تمغے جبکہ 1500 میٹر کی دوڑ میں ایک کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔

آصفہ نے 2 گھنٹے 22 منٹ 58 سیکنڈ میں میرا تھن مکمل کرکے چاندی کا تمغہ جیتا جبکہ کینیا کے ہیلن اوبیری نے گھنٹے 23 منٹ اور 10 سیکنڈ میں میراتھن مکمل کرکے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔

سیفان حسن کا کہنا تھا کہ یہ آسان نہیں تھا، ان کی تیسری کوشش پیرس میں 10 دنوں میں 62 کلومیٹر سے زیادہ دوڑنے کے برابر تھی۔

انہوں نے کہا کہ دوڑ میں ہر لمحہ مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ میں نے 5،000 میٹر اور 10،000 میٹر تک دوڑ لگائی، میں خود سے کہہ رہی ہوتی تھی کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا ہوتا تو میں آج اچھا محسوس کررہی ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ آغاز سے اختتام تک یہ بہت مشکل تھا، راستے کا ہر قدم، میں سوچ رہی تھی میں نے ایسا کیوں کیا؟ مجھے کیا ہو گیا ہے؟

انہوں نے کہا کہ میں کبھی بھی اختتامی لائن تک نہیں پہنچی جیسا کہ میں نے آج کیا ہے۔

سیفان حسن، جنہوں نے 2023 لندن میراتھن کا ٹائٹل اپنے نام کیا اور پھر اکتوبر میں 2 گھنٹے 13 منٹ اور 44 منٹ کے دورانیے میں شکاگو میراتھن مکمل کرکے کامیاب ہونے کے بعد اب پیرس میں دوسری بار اپنے کم ترین وقت میں میراتھن کمل کی ہے، نے کہا کہ اولمپک گولڈ میڈل ایک اعزاز ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں لندن میراتھن میں بہت خوش تھی لیکن آج میں زیادہ خوش ہوں، مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں اولمپک میراتھن چیمپیئن ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میراتھن کچھ اور ہے۔ جب آپ دو گھنٹے اور 20 منٹ سے زیادہ وقت میں 42 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں تو ہر ایک قدم آپ کو یہ بہت مشکل اور بہت تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب میں نے میراتھن مکمل کی تو یہ پورا لمحہ آزادی کا تھا، یہ ناقابل یقین ہے، میں نے کبھی ایسا تجربہ نہیں کیا، یہاں تک کہ میں نے جو دیگر میراتھن میں حصہ لیا وہ بھی اس کے قریب نہیں تھیں۔

سخت چڑھائیاں، دشوار گزار اترائیاں

42 کلومیٹر طویل میراتھن کا راستہ وسطی پیرس سے لوپ پر ورسیلز کی طرف مڑتا ہے جس میں فرانسیسی انقلاب کے ایک اہم لمحے کی نقل کی گئی: 5 اکتوبر، 1789 کو ورسیلز پر خواتین کا مارچ، جس کے نتیجے میں فرانسیسی بادشاہ لوئس سولہویں نے بالآخر مردوں اور شہریوں کے حقوق کے اعلامیے کی توثیق کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔

اس روٹ میں 436 میٹر چڑھائی اور 438 میٹر اترائی شامل تھی۔ روٹ پر زیادہ سے زیادہ اتار چڑھاؤ کا تناسب 13.5 فیصد تھا۔

31 سالہ سیفان حسن کو 1:38 کے نشان پر سخت چڑھائی کا سامنا کرنا پڑا اور ایسا لگ رہا تھا کہ یہ ان کی تاریخی تیسری کی کوشش کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔

لیکن سیفان حسن اگر ایک مضبوط حریف نہ ہوتیں کچھ بھی نہیں ہوتا تاہم وہ جلد ہی خطرناک اترائی پر مرکزی گروپ میں شامل ہو گئیں۔

آصفہ اور امانے بیریسو شانکولے نے آگے بڑھنے کی کوشش کی۔

کینیا کی شیرون لوکیڈی، دفاعی چیمپیئن پیریز جیپچیر اور اوبیری نے ایتھوپیا کے دو کھلاڑیوں کے ساتھ 30 کلومیٹر کا فاصلہ ایک گھنٹہ 43 منٹ اور 59 سیکنڈ میں طے کیا۔

سیفان حسن نے مشرقی افریقی کھلاڑیوں کے ساتھ قدم ملا کر مقابلہ کیا اور 33 کلومیٹر کے فاصلے پر جیپچیر کی رفتار کم ہو گئی۔

شانکولے بھی دو کلومیٹر کا فاصلہ رہنے پر کمزور پڑگئیں جسکی وجہ سے دیگر ایتھلیٹ آگے نکل گئیں اور وہ ٹاپ تھری میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔

ٹور ڈی فرانس کے اسپرنٹ مرحلے کی طرح، یہ چاروں ایک دوسرے کو آگے پیچھے کرتی ہوئی آخری کلومیٹر تک پہنچ گئیں، اوبیری تیزی کی کوشش کررہی تھیں، آنکھیں بائیں اور دائیں جھک رہی تھیں، چاروں اپنی رفتار کے ساتھ اختتامی لائن تک پہنچنے کی کوشش کررہی تھیں۔

سیفان حسن نے جائزہ لیا کیوں کہ اختتامی لمحات سے قبل بہت سی ایتھلیٹ میدان چھوڑ رہی تھیں تاہم اس وقت لوکیڈی اس رفتار کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی۔

اس کے بعد تین ایتھلیٹ رہ گئیں: حسن، آصفہ اور اوبیری۔

آصفہ نے اوبیری کو پیچھے چھوڑنے کیلئے بھرپور اور آخری کوشش کی۔

اب یہ مقابلہ حسن اور آصفہ کے درمیان رہ گیا تھا، ڈچ ایتھلیٹ بھرپور انداز میں تیزی کے ساتھ دوڑیں اور آصفہ سے آگے نکل گئیں۔

دونوں ایتھلیٹ نے اپنی رفتار دوبارہ حاصل کی تاہم سیفان مزید تیزی لاتے ہوئے اختتامی لائن تک پہنچیں اور یادگار گولڈ میڈل حاصل کیا۔

انہوں نے کہا کہ آخر میں میں نے سوچا کہ یہ صرف 100 میٹر کی دوڑ ہے، میں نے خود سے کہا کہ سیفان چلو تھوڑی سے کوشش اور ، کسی ایسے شخص کی طرح محسوس کریں جو 200 میٹر کی دوڑ میں حصہ لیتا ہے۔

سیفان حسن کے امریکی کوچ ٹم روبیری کا کہنا تھا کہ ان کے لیے ایک ٹریک میں دو تمغے جیتنا ناقابل یقین تھا، لیکن سونے کے تمغے کے ساتھ اختتام کرنا اور اتنے اعلیٰ درجے پر اختتام کرنا بہترین ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں حیران ہوں کیونکہ ہم یہی توقع کر رہے تھے اور آپ کو اس طرح کی کسی چیز کی امید کرنے کے لئے پاگل ہونا پڑے گا، مجھے لگتا تھا کہ وہ سونے کے تمغے کے لیے نہیں بلکہ تین تمغوں کے لیے آئی ہیں۔

Read Comments