محمد یونس کی بنگلہ دیشی شہریوں سے ملکی تعمیر و ترقی کیلئے تیار رہنے کی اپیل

07 اگست 2024

بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے محمد یونس، جو بڑے پیمانے پر ہونے والے ان حالیہ مظاہروں کے بعد نگران حکومت کی سربراہی سنبھالنے کیلئے تیار ہیں جس کے نتیجے میں وزیر اعظم حسینہ واجد استعفیٰ دیکر ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوئیں، نے بدھ کے روز اپنے ہم وطنوں پر زور دیا ہے کہ وہ ان کی متوقع واپسی سے قبل ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے تیار رہیں۔

ایوان صدر نے کہا ہے کہ نوبل انعام یافتہ مائیکرو فنانس کے علمبردار طویل عرصے تک وزیر اعظم رہنے والی آمریت پسند شیخ حسینہ کے ملک سے فرار ہونے کے بعد عبوری حکومت کی سربراہی کریں گے۔

فرانس سے ممکنہ وطن واپسی سے ایک روز قبل محمد یونس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پرسکون رہیں اور ملک کی تعمیر کے لیے تیار رہیں۔ ان کا یہ بیان کئی ہفتوں تک جاری حالیہ پر تشدد واقعات کے تناظر میں ہے جس کے نتیجے میں 455 افراد ہلاک ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم تشدد کا راستہ اختیار کریں گے تو سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔

یہ تقرری اس وقت سامنے آئی ہے جب طلبہ رہنماؤں نے 84 سالہ یونس کو قیادت سونپنے کا مطالبہ کیا ہے جنہیں بنگلہ دیش ملک میں لاکھوں افراد کو غربت سے نکالنے کا سہرا دیا جاتا ہے۔

صدر کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ صدر محمد شہاب الدین، آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہان اور طلبہ رہنماؤں کے ساتھ ایک میٹنگ میں کیا گیا۔

اجلاس میں شریک اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمینیشن کے رہنماؤں میں سے ایک ناہید اسلام کے مطابق یونس کو چیف ایڈوائزر کا عہدہ دیا جائے گا۔

اسلام نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ شہاب الدین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عبوری حکومت کم سے کم وقت میں تشکیل دی جائے گی۔

محمد یونس کے وکیل خواجہ تنویر احمد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے بدھ کے روز یونس کو لیبر قوانین کیخلاف ورزی پر دی گئی سزا سے بری کردیا ہے۔

لیبر قوانین کی خلاف ورزی پر چھ ماہ قید کی سزا سنائے جانے کے بعد یونس اس سال کے اوائل میں بیرون ملک گئے تھے – لیکن اپیل تک انہیں ضمانت مل گئی تھی۔

اس کیس کو ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت واچ ڈاگز کی جانب سے سیاسی محرکات قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

’فتح‘

مجوزہ حکومت کے بارے میں فوج کے کردار سمیت کچھ دیگر تفصیلات موجود ہیں لیکن یونس نے کہا ہے کہ وہ ”چند“ مہینوں کے اندر انتخابات کروانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں ان بہادر طلباء کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے ہماری دوسری یوم فتح کو ممکن بنانے میں قائدانہ کردار ادا کیا اور عوام کو ان کی مکمل حمایت کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ آئیے ہم اپنی نئی فتح کا بہترین استعمال کریں۔ ہمیں اپنی غلطیوں کی وجہ سے اسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔

76 سالہ حسینہ واجد، جو 2009 ء سے برسراقتدار تھیں، نے پیر کے روز اس وقت استعفیٰ دے دیا جب ڈھاکہ کی سڑکوں پر لاکھوں افراد جمع ہو گئے اور ان کے استعفے کا مطالبہ کیا۔

پیر کے روز ہونے والے واقعات ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری بدامنی کا نتیجہ تھے، جو سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ کے منصوبے کے خلاف احتجاج کے طور پر شروع ہوئی تھی لیکن حسینہ مخالف تحریک میں تبدیل ہو گئی۔

حسینہ واجد، جن پر جنوری کے انتخابات میں دھاندلی اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام تھا، نے مظاہروں کو کچلنے کے لیے سکیورٹی فورسز تعینات کیں۔

’تشدد روکا جائے‘

کریک ڈاؤن میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن فوج ہفتے کے آخر میں حسینہ کے خلاف ہو گئی اور انہیں ہیلی کاپٹر میں ہمسایہ ملک بھارت فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔

فوج کے سربراہ جنرل وکر الزمان نے اتوار کے روز کہا تھا کہ یہ تشدد روکنے کا وقت ہے۔

اس کے بعد سے فوج نے یونس کی تقرری کے علاوہ طلبہ رہنماؤں کے کئی دیگر مطالبات کو قبول کر لیا ہے۔

صدر نے منگل کے روز پارلیمنٹ تحلیل کر دی، جو طلبہ رہنماؤں اور سابق اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کا ایک اور مطالبہ ہے۔

صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس فورس کے سربراہ کو، جسے مظاہرین حسینہ واجد کے کریک ڈاؤن کی قیادت کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، منگل کے روز برطرف کر دیا گیا ہے۔

سابق وزیر اعظم اور بی این پی کی چیئرپرسن 78 سالہ خالدہ ضیاء کی بھی کئی سال تک جاری نظر بندی ختم کردی گئی ہے۔

ان کی یونائیٹڈ پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ پارٹی نے بدھ کے روز کہا کہ سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے، جن میں 2019 سے ایک خفیہ جیل میں قید ایک مقامی کارکن مائیکل چکما بھی شامل ہیں۔

اور فوج نے کئی جرنیلوں میں ردوبدل کیا، جن میں سے کچھ حسینہ واجد کے قریبی سمجھے جاتے تھے جبکہ ضیاء الاحسن کو بھی برطرف کر دیا جو خطرناک ریپڈ ایکشن بٹالین نیم فوجی دستے کے کمانڈر تھے۔

’آمریت‘ سے آزادی

منگل کے روز سے دارالحکومت کی سڑکیں بڑی حد تک پرامن ہیں – ڈھاکہ ہوائی اڈے پر دکانیں کھل رہی ہیں اور بین الاقوامی پروازیں دوبارہ شروع ہو رہی ہیں – لیکن سرکاری دفاتر زیادہ تر بند رہے۔

حسینہ واجد کی روانگی کے بعد لاکھوں بنگلہ دیشی شہری جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے اور پرجوش ہجوم نے ان کی سرکاری رہائش گاہ پر سامان بھی لوٹ لیا۔

21 سالہ ساجد احناف نے ان واقعات کا موازنہ جنگ آزادی سے کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آمریت سے آزاد کرا لیا گیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مشتعل ہجوم نے حسینہ واجد کے اتحادیوں اور ان کے اپنے افسران پر انتقامی حملے کیے اور جیل سے 500 سے زائد قیدیوں کو رہا بھی کیا۔

پولیس سرکاری عہدیداروں اور اسپتال کے ڈاکٹروں سے ملنے والے اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق مظاہروں کے آغاز کے بعد سے پیر اب تک کا سب سے تباہ کن دن ثابت ہوا۔ جولائی کے اوائل سے پرتشدد مظاہروں میں اب تک کم از کم 455 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

احتجاج کے دوران مظاہرین پارلیمنٹ میں گھس گئے اور ٹی وی اسٹیشنوں کو آگ لگا دی۔ دیگر افراد نے حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمان کے مجسمے توڑ دیے جو بنگلہ دیش کی آزادی کے ہیرو تھے۔

ہندوؤں کی متعدد دکانوں اور گھروں پر بھی حملے کیے گئے جسے مسلم اکثریتی ملک میں کچھ لوگ حسینہ واجد کے قریب سمجھتے ہیں۔

بنگلہ دیشی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپی یونین کے سفارت کاروں نے مذہبی، نسلی اور دیگر اقلیتی گروہوں پر حملوں کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ہمسایہ ممالک بھارت اور چین، جو بنگلہ دیش کے اہم علاقائی اتحادی ہیں، نے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔

Read Comments