مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب ایران اور اس کے اتحادیوں نے حماس کے رہنما اسماعیل ہینہ کے قتل پر اپنے ردعمل کی تیاری کرلی ہے، جس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا، جس سے علاقائی جنگ کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
اسرائیل کے اتحادی امریکا نے کہا کہ وہ جنگی جہاز اور لڑاکا طیاروں کو خطے میں منتقل کرے گا، جب کہ مغربی حکومتوں نے اپنے شہریوں کو لبنان چھوڑنے کی ہدایت کردی ہے - جہاں ایران کی حمایت یافتہ طاقتور حزب اللہ تحریک قائم ہے - اور ایئر لائنز نے پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔
اس ہفتے تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت، بیروت میں حزب اللہ کے فوجی سربراہ کے قتل کے چند گھنٹے بعد، ایران اور نام نہاد مزاحمتی محور نے انتقامی کاررائیوں کا ارادہ کیا ہے۔
لبنان، یمن، عراق اور شام کے ایران کے حمایت یافتہ گروپ پہلے ہی غزہ میں اسرائیل اور فلسطینی حماس گروپ کے درمیان تقریباً 10 ماہ سے جاری جنگ میں شامل ہو چکے ہیں۔
ہفتے کے روز ایک بار پھر حزب اللہ اور اسرائیل میں چھڑپیں ہوئی ہیں، اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک مہلک حملہ کیا، اور غزہ شہر میں ایک اسکول کے احاطے کو ایک حملے میں نشانہ بنایا جس میں کم از کم 17 افراد شہید ہوئے۔
حماس نے فوجی سرگرمیوں کے لیے سویلین انفرااسٹرکچر استعمال کرنے کی تردید کی ہے۔
ایران نے ہفتے کے روز کہا کہ وہ توقع کرتا ہے کہ حزب اللہ اسرائیل کے اندر حملے کریگی اور اب وہ فوجی اہداف تک محدود نہیں رہے گی۔
پینٹاگون نے کہا کہ وہ امریکی اہلکاروں کی حفاظت اور اسرائیل کے دفاع کے لیے مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھا رہا ہے۔
اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے رپورٹ کیا کہ ہفتے کے روز مراکش، اردن اور ترکی میں ہزاروں افراد نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ہفتے کے روز اپنے فرانسیسی اور برطانوی ہم منصبوں سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے بارے میں الگ الگ بات کی۔رہنمائوں نے تمام فریقوں کی جانب سے تحمل اختیار کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔