اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد نے کہا ہے کہ پاکستان کو رواں مالی سال (مالی سال 2025) میں بیرونی ادائیگیوں کو پورا کرنے میں کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
مرکزی بینک کے سربراہ کا یہ تبصرہ مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے اجلاس کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے آیا۔
ایم پی سی نے کلیدی پالیسی ریٹ کو 100 بیسس پوائنٹس کم کرکے 19.5 فیصد کردیا ہے۔
قرضوں کی واپسی اور قرضوں کی ممکنہ ری پروفائلنگ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں جمیل احمد نے کہا کہ پاکستان کو مالی سال 25 میں بیرونی قرضوں کی مد میں 26.2 بلین ڈالر ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا، “اس میں سود کی ادائیگی میں تقریبا 4 بلین ڈالر شامل ہیں، جبکہ بقیہ (22 بلین ڈالر سے زیادہ) بنیادی ادائیگیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ جولائی میں 3 ارب ڈالر کے قرضے پہلے ہی طے کیے جاچکے ہیں جس میں 2 ارب ڈالر کا رول اوور اور 1.1 ارب ڈالر کی ادائیگی شامل ہے۔
لہٰذا آنے والے 11 ماہ میں ہمیں 23 ارب ڈالر واپس کرنے ہوں گے۔ اس میں سود کی ادائیگی کیلیے 3.7 ارب ڈالر اور بنیادی ادائیگی کیلئے 20 ارب ڈالر شامل ہیں۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان نے بیرونی قرضوں کی بروقت ادائیگیاں کیں جن میں سود اور اصل ادائیگیاں دونوں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان ادائیگیوں کے باوجود ہمارے بیرونی ذخائر 4.4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 9.4 ارب ڈالر ہوگئے ہیں جو معیاری ذخائر ہیں۔
ادائیگی کے طریقہ کار کے بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے جمیل احمد نے کہا کہ اس 26 ارب ڈالر قرض کی ادائیگی میں سے 12.3 ارب ڈالر دو طرفہ رول اوور ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تقریبا 4 ارب ڈالر کے کمرشل قرضے ہیں جو دو طرفہ طور پر طے شدہ قرضے بھی ہیں جو ادا بھی کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح بقیہ 10 ارب ڈالر قابل ادائیگی رقم ہے جس میں سے 1.1 ارب ڈالر جولائی میں ادا کیے جا چکے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ رواں مالی سال کے دوران ہمارے تقریبا 9 ارب ڈالر کے قابل ادا قرضے ہمارے موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر سے کم ہیں، جبکہ مزید زر مبادلہ کی آمد متوقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت مکمل طور پر موجود ہے اور ہمیں قرضوں کی ادائیگی میں کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ہفتہ وار بنیادوں پر 39 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی جو 19 جولائی تک 9 ارب 20 کروڑ ڈالر رہی۔
ملک کے کل زرمبادلہ کے ذخائر 14.33 ارب ڈالر رہے۔ کمرشل بینکوں کے خالص زرمبادلہ کے ذخائر 5.31 ارب ڈالر رہے۔
تاہم، عالمی ریٹنگ ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ دیگر تجزیہ کاروں نے پاکستان کی بیرونی مالی ضروریات اور قرضوں کی پائیداری پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی تجویز کردہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر بات چیت کے ساتھ چین سے بجلی کے شعبے کے قرضوں کی ری پروفائلنگ پر بھی بات چیت شروع کردی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان منصوبے کی بنیاد پر بجلی کے شعبے کو چینی قرضوں کی ری پروفائلنگ پر توجہ دے گا اور اسلام آباد اس مقصد کے لئے چین میں ایک مقامی مشیر مقرر کرنے پر غور کر رہا ہے۔
وزیر خزانہ نے اس بات پر زور دیا کہ یہ قرضوں کی ری پروفائلنگ ہے نہ کہ ری اسٹرکچرنگ کیونکہ واجب الادا رقم میں کٹوتی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ری پروفائلنگ کو عام طور پر ادائیگی کے لئے درکار وقت میں متفقہ اضافہ سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مجموعی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کے ساتھ بھی بات چیت کر رہا ہے جس کے لئے اسلام آباد کو بورڈ کی سطح کی منظوری کی ضرورت ہے۔