عالمی کشیدگی بڑھنے سے جوہری ہتھیاروں کے اخراجات میں اضافہ ہوا، تحقیق

20 جون 2024

جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے پر اخراجات میں ایک تہائی اضافہ کیا ہے، انہوں نے بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تناؤ کے درمیان اپنے ذخیرے کو جدید بنایا ہے۔

جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی عالمی مہم (آئی سی اے این) کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق دنیا کے نو جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک نے گزشتہ سال مشترکہ طور پر اپنے ہتھیاروں پر 91 ارب ڈالر خرچ کیے۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کی اس رپورٹ اور ایک علیحدہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک اپنے اخراجات میں ڈرامائی طور پر اضافہ کر رہے ہیں کیونکہ وہ جوہری ہتھیاروں کو جدید بنانے کے ساتھ نئے جوہری ہتھیاروں کی تنصیب بھی کر رہے ہیں۔

آئی سی اے این کی سربراہ ملیسا پارکے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میرے خیال میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ جاری ہے۔

دریں اثنا ایس آئی پی آر آئی کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پروگرام کے سربراہ ولفریڈ وان نے ایک بیان میں متنبہ کیا ہے کہ ”ہم نے سرد جنگ کے بعد سے جوہری ہتھیاروں کو عالمی تعلقات میں اتنا اہم کردار ادا کرتے نہیں دیکھا ہے“۔

ایس آئی پی آر آئی کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس سال کے آغاز میں دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی کل تخمینہ تعداد کسی حد تک کم ہو کر 12،121 رہ گئی، جو ایک سال پہلے 12،512 تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں کچھ پرانے ہتھیار بھی شامل ہیں جن کو تباہ کیا جانا ہے جبکہ 9,585 ہتھیاروں کے ذخیرے ممکنہ استعمال کے لیے موجود ہیں جو ایک سال قبل کے مقابلے میں نو زیادہ ہیں۔

اور 2,100 ہتھیاروں کو بیلسٹک میزائلوں میں ”ہائی آپریشنل الرٹ“ کی حالت میں رکھا گیا تھا۔ ایس آئی پی آر آئی کا کہنا ہے کہ ان میں سے تقریبا سبھی امریکہ اور روس کے قبضے میں ہیں لیکن چین کے بارے میں پہلی بار خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کے پاس ہائی آپریشنل الرٹ پر کچھ وار ہیڈز بھی موجود ہیں۔

ایس آئی پی آر آئی کے ڈائریکٹر ڈین اسمتھ نے کہا کہ سرد جنگ کے زمانے کے ہتھیاروں کو آہستہ آہستہ ختم کیے جانے کی وجہ سے عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں کمی کا سلسلہ جاری ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم آپریشنل جوہری وار ہیڈز کی تعداد میں سالانہ اضافہ دیکھ رہے ہیں۔

آئی سی اے این کی طرف سے رپورٹ کردہ اخراجات میں اضافہ اس موقف کی توثیق کرتا دکھائی دیتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف 2023 میں دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کے اخراجات میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں 10.8 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور اس اضافے میں 80 فیصد اضافہ امریکہ کا ہے۔

آئی سی اے این کا کہنا ہے کہ مجموعی اخراجات میں امریکہ کا حصہ 51.5 ارب ڈالر ہے جو جوہری ہتھیاروں سے لیس دیگر تمام ممالک سے زیادہ ہے۔

اس کے بعد سب سے زیادہ خرچ کرنے والا ملک چین ہے جس نے 11.8 ارب ڈالر خرچ کیے، اس کے بعد روس 8.3 ارب ڈالر خرچ کرنے والا ملک ہے۔

دریں اثنا برطانیہ کے اخراجات میں مسلسل دوسرے سال نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یہ 17 فیصد اضافے کے ساتھ 8.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک جن میں فرانس، بھارت، اسرائیل، پاکستان اور شمالی کوریا بھی شامل ہیں، کی جانب سے خرچ کیے جانے والے اخراجات 2018 کے 68.2 ارب ڈالر کے مقابلے میں 33 فیصد زیادہ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سے اب تک جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک نے ان مہلک ہتھیاروں پر مجموعی طور پر 387 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔

پارک نے جوہری ہتھیاروں پر اربوں ڈالر خرچ کیے جانے کو ’عوامی فنڈز کی بڑی اور ناقابل قبول غلط تقسیم‘ قرار دیا۔

انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ یہ رقم عالمی بھوک کے خاتمے کے لئے ورلڈ فوڈ پروگرام کے تخمینے سے کہیں زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ آپ جوہری ہتھیاروں کے خرچ کے ہر منٹ کے لیے دس لاکھ درخت لگا سکتے ہیں۔

’’یہ اعداد و شمار بیہودہ ہیں، اور یہ وہ پیسہ ہے جس کے بارے میں ریاست کہتی ہے کہ وہ ہتھیاروں کی طرف جا رہی ہے… انہوں نے نیوکلیئر ڈیٹرنس ڈاکٹرائن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے کبھی استعمال نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ یہ سرمایہ کاری نہ صرف فضول ہے بلکہ انتہائی خطرناک بھی ہے۔

”جب ڈیٹرنس ناکام ہو جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟“

جنیوا میں قائم آئی سی اے این نے جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کے معاہدے کا مسودہ تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے پر 2017 کا امن کا نوبل انعام جیتا۔

اب تک ستر ممالک نے اس کی توثیق کی ہے اور مزید ممالک نے اس پر دستخط کیے ہیں ، حالانکہ جوہری ہتھیاررکھنے والے کسی بھی ملک نے اس پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

پیر کو آئی سی اے این کی رپورٹ کی شریک مصنفہ الیسیا سینڈرز زکرے نے کہا کہ “آرماگیڈن میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے، جوہری ہتھیاروں سے لیس نو ریاستوں کو دنیا کے تقریبا آدھے ممالک کی مثال پر عمل کرنا چاہئے اور معاہدے میں شامل ہونا چاہئے … “اور عالمی سلامتی میں حقیقی کردار ادا کرنا چاہیے۔

Read Comments