اتحاد کے بعد نریندر مودی تیسری مدت کیلئے تیار

06 جون 2024

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جمعرات کو غیر متوقع طور پر ایسے سخت انتخابی مقابلے کے بعد تیسری مدت کے لیے حلف اٹھانے کی تیاری کر رہے ہیں جس نے ان کی پارٹی کو مخلوط حکومت بنانے پر مجبور کر دیا۔

مودی کی ہندو قوم پرست تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، جس نے گزشتہ ایک دہائی سے مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت کی، ایک بار پھر بھاری اکثریت سے جیتنے کی توقع کر رہی تھی۔

لیکن منگل کو جاری ہونے والے چھ ہفتے کے انتخابات کے نتائج انتخابی سروے کے برعکس نکلے، یہ دیکھتے ہوئے کہ مودی کی جماعت اپنی اکثریت کھورہی ہے اور اب نتائج اسے آئندہ حکومت کیلئے15 رکنی اتحاد بنانے کیلئے بات چیت پر مجبور کررہی ہے۔

دائیں بازو کے اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) نے بدھ کے آخر میں اعلان کیا کہ وہ حکومت بنانے پر رضامند ہو گئے ہیں۔

بی جے پی کی جانب سے اتحاد کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم سب نے متفقہ طور پر نریندر مودی کو وزیر اعظم کے طور پر منتخب کیا ہے۔ اس اتحاد کے پاس پارلیمنٹ میں 293 نشستیں ہیں، جس سے اسے 543 نشستوں پر مشتمل اسمبلی کا کنٹرول حاصل ہے۔

بھارتی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ مودی ہفتہ کو وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

ہندوستان ٹائمز نے اپنے جمعرات کے اداریے میں متنبہ کیا کہ مودی کے ”اتحادی سیاست کے میدان“ پر انحصار کا مطلب ہے کہ مودی کو تیسری مدت کیلئے توقع سے کہیں زیادہ مشکل کا سامنا ہے۔

بھارتی جریدے کا کہناہے کہ اتفاق رائے کی تعمیر کو حکمرانی کی بنیاد بننا پڑے گا اور بی جے پی کو اپنے توسیعی منصوبوں کو دوبارہ ترتیب دینا ہوگا۔

”ترقی کا نیا باب“

ایک ایسے موقع پر جب مودی کو ملک کے اندر زیادہ پیچیدہ سیاسی ماحول کا سامنا ہے وہ دنیا بھر کے رہنماؤں سے تعریفیں کرواچکے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے مودی کو ان کے اتحاد کی فتح پر مبارکباد دی اور محکمہ خارجہ نے کہا کہ امریکہ ہندو قوم پرست رہنما کے ساتھ ”آزاد اور کھلے“ ایشیا پر کام کرنے کی امید رکھتا ہے۔

بائیڈن نے لکھا کہ ہماری قوموں کے درمیان دوستی بڑھ رہی ہے جبکہ فرانسیسی صدر عمانویل میکرون نے اپنے ”پیارے دوست“ کو مبارکباد دی۔

چین نے مودی کو مبارکباد دی اور کہا کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ ”کام کرنے کے لیے تیار“ ہے جب کہ اتحاد کی جیت کو برطانیہ، یورپی یونین، جاپان اور روس نے بھی سراہا ہے۔

73 سالہ مودی نے منگل کی رات اصرار کیا کہ انتخابی نتائج ایک ایسی فتح ہے جس سے یہ بات یقینی ہوگئی ہے کہ وہ و اپنا ایجنڈا جاری رکھیں گے۔

مودی نے اپنی جیت کے بعد دارالحکومت نئی دہلی میں اپنے حامیوں کے ایک ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تیسری مدت بڑے فیصلوں میں سے ایک ہوگی اور بھارت ترقی کا ایک نیا باب تحریر کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ میری ضمانت ہے۔

اتحاد کا کھیل

مبصرین اور سروے کے نتائج نے مودی کی زبردست جیت کی پیش گوئی کی تھی ،ناقدین نے مودی پر حزب اختلاف کی شخصیات کو جیل بھیجنے اور بھارت کی 200 ملین سے زائد مسلم کمیونٹی کے حقوق کو پامال کرنے کا الزام لگایا ہے۔

اہم اپوزیشن کانگریس پارٹی نے شاندار تبدیلی کے ساتھ 99 سیٹیں حاصل کیں جو 2019 کے 52 کی تعداد کو تقریباً دوگنا کر دیتی ہے۔

جمعرات کو روز نامہ دی ہندو میں شائع ایک تحریر میں کنگز کالج لندن کے پروفیسر کرسٹو جیفرلوٹ نے لکھا کہ آج کے ماسٹرز اتنے مضبوط نہیں ہیں جتنے وہ تھے۔

انہوں نے لکھا کہ اپنے سیاسی کیریئر میں پہلی بار نریندر مودی کو اتحادی کھیل کھیلنا پڑے گا۔

کانگریس پارٹی کے صدر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ ووٹ کے نتائج مودی اور ان طرز سیاست کے خلاف ہیں۔

انہوں نے اپوزیشن اتحاد کے ایک بڑے اجلاس میں کہا کہ یہ ان کے لیے ذاتی طور پر ایک بہت بڑا سیاسی نقصان ہے، اس کے علاوہ ایک واضح اخلاقی شکست بھی ہے۔

اپنے حلقے کے انتخابات میں مودی 152,300 ووٹوں کے بہت کم مارجن سے ہندوؤں کے مقدس شہر وارانسی کی نمائندگی کرتے ہوئے دوبارہ منتخب ہوئے۔ پانچ سال قبل انہوں نے اس حلقے سے 5 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے۔

براؤن یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات آشوتوش ورشنی نے جمعرات کو انڈین ایکسپریس میں لکھا کہ انتخابات نے آئینی اقدار اور شہری وقار کے دفاع کی تڑپ کا اظہار کیا۔

ورشنی نے دلیل دی کہ مودی کے دھچکے سے ان خدشات کی عکاسی ہوتی ہے کہ معاشرے میں عداوت اور پولرائزیشن، حقوق کے بارے میں لوگوں کی تشویش اور تیزی سے بڑھتی ہوئی عدم مساوات“ کے پس منظر میں ووٹروں کے لیے ”آئیڈیا آف انڈیا“ کا کیا مطلب ہے۔

Read Comments