ہونڈا اٹلس کارز کی جانب سے پاکستان اسٹاک مارکیٹ کو بھیجے گئے مالیاتی اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو یہ بات حیران کن ہے کہ کمپنی نے اپنی خالص آمدنی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 9 گنا اضافہ کیسے کیا جب تمام اہم میٹرکس میں کمی دیکھی گئی ہے ۔ مالی سال 24 کے دوران آمدن میں 42 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ اس دوران کمپنی نے تقریبا 10،530 یونٹس فروخت کیے جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریبا 15،000 یونٹس کم ہیں جو 59 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے ۔ پچھلے ایک سال میں گاڑیوں کی مانگ میں زبردست کمی آئی ہے جو اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے۔
گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کمپنی کی فی یونٹ آمدنی 37 لاکھ روپے سے بڑھ کر 53 لاکھ روپے تک جاپہنچی جس سے لاگت 34 لاکھ سے بڑھ کر 48 لاکھ روپے فی یونٹ ہوگئی ۔ اس کے نتیجے میں کمپنی نے 8 فیصد کا مجموعی مارجن برقرار رکھا جو گزشتہ سال کی ہی طرح تھا ۔ خریداری کے بہتر منصوبوں اور قیمتوں میں اضافے نے مارجن کے نقطہ نظر سے کمپنی کے حق میں کام کیا۔
آمدنی کے اعدادوشمار گرنے سے یہ واضح ہے کہ کمپنی کے اوور ہیڈز اور فنانس اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آمدنی کے حصے کے طور پر مالی اخراجات 4.3 فیصد تک بڑھ گئے (مالی سال 23 میں 2 فیصد سے) اور انتظامی اور مارکیٹنگ اخراجات پچھلے سال کے 0.4 فیصد کے مقابلے میں بڑھ کر 2.2 فیصد ہوگئے۔ تاہم یہاں دیگر چارجزمیں بھی نمایاں کمی آئی ہے ، وہ مالی سال 23 کے دوران آمدنی کا 5 فیصد تھے اور رواں سال 1 فیصد تک گر گئے۔ دریں اثنا، نقد بیلنس اور قلیل مدتی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والی دیگر آمدنی بڑے پیمانے پرمنافع کو بہتر کرتی رہی ہے ، اگر پچھلے سال کی سطح جیسی نہیں تو مالی سال 24 میں، یہ ٹیکس سے پہلے کی آمدنی کا 82 فیصد تھی ۔ گزشتہ سال یہ شرح 117 فیصد تھی۔
اس کے باوجود ہونڈا کے لیے اصل وجہ ٹیکس کا بوجھ نمایاں طور پر کم ہونا تھا جس کی وجہ سے کمپنی کو تھوڑا بہت فائدہ پہنچا۔ مالی سال 24 میں مؤثر ٹیکس صرف 15 فیصد تھا جو گزشتہ سال کے 87 فیصد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ’دیگر آمدنی‘ اور مسلسل مارجن کی وجہ سے بعد از ٹیکس آمدنی 2.3 ارب روپے تک پہنچ گئی، جو مالی سال 23 کے 260 ملین روپے سے ڈرامائی طور پر زیادہ ہے۔
ہونڈا نے اپنے مختلف ماڈلز کی پروموشنز کیں اور مختصر مدت کے لیے ترجیحی فروخت، فوری ڈلیوری اور توسیعی وارنٹی کی پیش کش بھی کی۔ اس سے فروخت میں اضافہ ہونا چا ہیے تھا لیکن مانگ کمزور رہی ۔ اس دوران کمپنی کی پیداوار بھی کئی روز تک بند رہی کیونکہ طلب میں سست روی نے پیداوار کو مسلسل معطل رکھا ۔ اگلے چند مہینوں تک طلب کے امکانات سست ہیں - یہاں تک کہ قیمتوں میں کمی کے باوجود - کمپنی 65 فیصد (6.5 روپے فی حصص) کے حتمی منافع کی پیش کش کرکے اپنے شیئر ہولڈرز کو خوش رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔